Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Aaqa Ki Aamad Marhaba (5)

Aaqa Ki Aamad Marhaba (5)

آقا کی آمد مرحبا (5)

ماہ ربیع الا ول ہمارے پیارے آقا، سردارِانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺکی اس دنیامیں نورانی آمد کی تشریف آوری کا مہینہ ہے۔ آپ کی جلوہ گری گمراہ کن تاریکیوں اور جہالت میں ڈوبی انسانیت کے لیے آفتابِ ہدایت ہے کیونکہ نورانیتِ مصطفی ﷺ سے ہر طرف نور کی رحمتیں چھما چھما برسنا شروع ہوگئیں۔ اگر ہم کائنات کی تخلیق پر غور و فکر کریں تو پتا چلتا ہے کہ ایک دور ایسا بھی تھا جب کائنات تخلیق نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی زماں و مکاں کا کوئی تصور تھا۔ مگر ہمارا پروردگار اور خالقِ کائنات اس وقت بھی یکتا و یگانہ موجود تھا۔ پھر ایک ایسا دور آیا جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کبریائی کے ظہور اور خالق و مالک ہونے کے اظہار کا ارادہ کیا اور کائنات کی تخلیق کی۔

اس لامحدود کائنات کو وجود میں لانے کے لیے صورت گری کی گئی اور اسے متوازن، ہم آہنگ اور نظم و ضبط کے ایسا نظام بنایا جو آج تک بنا کسی عیب کے چل رہا۔ اس کائنات کو آباد کرنے، بسانے اور اپنی عبادت کے لیے نوعِ انسانی کو تخلیق کیا گیا جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات حق کی نشانیوں کو عیاں کیا گیا۔ جب ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسی ہستی نظر آتی ہے جو اس کل کائنات میں محبوبیت کے اعلی درجہ پر فائز ہے اور وہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ خالقِ کائنات اور وحدہ لاشریک رب کو اس بزمِ کون ومکاں میں سیدالانبیاء سے بڑھ کر کوئی بھی محبوب نہیں۔ اسی لیے آپﷺ کی ہی ذاتِ مبارک اس کائنات کی وجہِ تخلیق بنی۔

تخلیقِ مقصودِ کائنات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی تعریف و توصیف کے لیے مخلوق پیدا کی اور تمام پیغمبروں سے آقا ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے، "اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھرتشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں ی تصدیق فرمائے تو ضرور ضرور اس پر ایمان لانااور ضرورضرور اس کی مدد کرنا۔ فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا، سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا۔ تو فرمایا ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں آپ تمہارے سے گواہوں میں ہوں۔ تو جو کوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ فاسق ہیں" (آل عمران 81-82)۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے نبی کریم ﷺ کی شان کے بیان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقدس تریں ہستوں (انبیاء) کی محفل قائم کرکے خود عظمتِ مصطفی کو بیان کیا اور تمام انبیاءؑ سے آپﷺ کے سردار ہونے کا اقرار لیا۔ اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کی حبیبِ خدا، محمد مصطفیﷺ ہی وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں اور آپﷺ کی شان سب سے اعلیٰ ہے۔

حضورﷺ کے نورِ مبارک کی ہی اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے سب سے اولین تخلیق فرمائی ہے پس آقا ﷺ تخلیق کے لحاظ سے سب سے پہلے اور بعثت کے لحاظ سے سب آخر میں تشرف لائے ہیں اور خاتم النبین ہیں۔ حدیثِ جابر میں ہے کہ جب حضرت جابرؓ نے آقا سے پوچھا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کس چیز کو پیدا فرمایا تو آپﷺ نے ارشادفرمایا "اے جابر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا اور وہ نور قدارت الہی سے جہاں جہاں چاہتا گردش کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم تھا، نہ آسمان تھا، نہ سورج تھا، نہ چاند تھا اور نہ جن تھے نہ انسان تھے (زرقانی)۔ حضورﷺ اس کائنات میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے اور مسجود و عبادت کرنے والے تھے۔ آپﷺ سے پہلے اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کو بے پایاں اعزازات، معجزات اور اختیارات دیے اور قاسم بنا کر دنیا میں جلوہ گر فرمایا۔

مالکِ کل نے سار ی کائنات کو بنا کااس میں زمین اور آسمان، دن اور رات، دریااور سمندر، سورج اور چاند، پہاڑ، ریگستان، موسم، اندھیرا اور اجالا، درند، چرند، پرند نیز ہر شے تخلیق فرما کر انسان کو اشرف المخلوقات بنایااور ہمارے پیارے نبی کو اشرف الانبیاء بنایا۔ اس کائنات کو رنگینیوں اور خوبصورتیوں سے مزین کرکے بتایا کہ یہ سب میرے محبوب کی وجہ سے تخلیق کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبوب ہستی لو تخلیق کرکے کائنات والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا تاکہ ان کو حق و سچ کا راستہ دکھائیں اور مخلوق کو خالق و مالک کی معرفت دلائیں اور اسکی تابعداری کرے کے راحت و سکون حاصل کریں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ر حمت و ہدایت ہے کہ "اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے(الانبیاء، 107)"۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا "چاہتے ہیں کہ اللہ کانور اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ نہ مانے گامگر اپنے نور کا پورا کرنا، پڑے برا مانیں کافر۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے، پڑے برا مانیں مشرک (التوبۃ، 32-33)۔ ان آیات سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حضورﷺ کو چھوڑ کر نہ انسا ن کو کبھی بھی ہدایت اور سچا دین نہیں مل سکتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بتانے سے ہی ہم اللہ کو پہچان سکتے ہیں۔ حضورﷺ کی ذاتِ اقدس ہی وجہِ تکوینِ کائنات و تخلیقِ کائنات ہے۔ آقا ﷺ کی ذات ہی مقصودِ کائنات ہیں کو امام احمد رضا خانؒ نے اپنے ایک نعتیہ کلام میں اس پیارے انداز میں بیان کیا ہے۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے۔۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan