Aaqa Ki Aamad Marhaba (4)
آقا کی آمد مرحبا (4)

پیارے نبیﷺکی بعثت ایسے دور میں ہوئی جب انسانیت جاہلیت کی روایات پر عمل پیرا تھی، اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، بدترین غلامی کی زنجیروں میں جکڑی تھی اور بے بس ہو کرسسکیاں لے رہی تھی۔ ہر قبیلہ اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی عبادت میں لگی ہوئی تھی، مشرکانہ رسم و رواج، توہم پرستی و قتل و غارت گری اپنے عروج پر تھی۔ انسانیت بدترین غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ سیاسی، معاشی، علمی اور مذہبی معمالات میں گمراہی کا شکار تھی۔ ہر قبیلے نے اپنی حکمرانی قائم کر رکھی تھی جس کی وجہ سے آپس کی رقابتوں اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے آئے روز خون ریزی کے واقعات ہوتے رہتے تھے۔
دین کو علماء یہودونصاریٰ نے اپنی مرضی سے استعمال کرنا شروع کیا ہوا تھا اور اسلامی کتابوں اور صحیفوں میں اپنی مرضی کی ترامیم کررہے تھے۔ عرب کو "جلی ہوئی زمین" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، جانور نما انسان قبائلی عصبیت میں جکڑے ہوئے تھے اور چالیس چالیس سال تک جنگیں لڑتے رہتے تھے۔ عورت کے مقدس وجود کو اپنے لیے باعثِ ننگ و عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم عام تھی۔ میراث میں عورت کا کوئی حصہ متعین نہ تھا، شوہر کا قرض بیوی سے وصول کرتے اور عدم ادائیگی کی صورت میں اسکے شوہر کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔
نبی پاکﷺ کی بعثت کا مقصد انسانوں کی ہدایت و اخلاقی تربیت کے ساتھ دعوتِ توحید اور انسانوں کو غلامی سے آزاد کروا کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کبریائی سے آشنا کروایا کہ دربدر سجدے کرنے کی بجائے خالق و مالکِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تعلیمات دیں۔ آپﷺ نے عرب میں چراغِ توحید کو ایسا روشن کیا کہ عرب کے دلوں میں توحید رچ بس گئی۔ آپﷺ نے اہل مکہ کی اخلاقی، روحانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی ہر لحاظ سے تربیت کی اور ان سے فرسودہ نظام اور توہم پرستی اور نگِ انسانیت کی شرمناک روایات کو ختم کروایا۔
چالیس سال تک اس پرُ آشوب اور بدترین دور میں آپﷺ نے اپنی صداقت و دیانت کی بنا پر صادق و امین کہلوائے اور تمام عالم میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ آپﷺ کے اسوہِ حسنہ کی وجہ سے لوگ جوق در جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہوتے رہے اور اسلام کے پرچم کو بلند کرتے رہے۔ اللہ تعالی نے آقا ﷺ کو عالی نسب اور معزز ترین گھرانے میں پیدا کیا جو اس دور میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ ﷺ کا سلسلہ نسب سب سے عالی مرتبت تھااس دور کے قبائل میں ممتاز حثیت کا حامل تھا جس کے بارے آپﷺ نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیلؑ سے بنی کنانہ کو منتخب کیا اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کیا اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا (مسلم، ترمذی)"۔
انصارکے کچھ لوگ حضورﷺ کے پاس آئے اور فرمایا کہ ہم آپ کی قوم سے آپ کے بارے میں عجیب باتیں سنتے ہیں یہاں تک کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا شمار قریش کے خاندان میں سے نہیں ہے۔ آپﷺ نے اپنے پاس والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا، "لوگو! میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ سنو! اللہ مالک الملک نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کے بہترین گروہ میں بنایا۔ پھر ان کے قبیلے بنائے تو مجھے ان کے بہترین قبیلے میں بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے ان سب سے بہترین ارفع و اعلی گھرانے میں رکھا۔ سو میں گھرانے کے حساب سے تم سب سے بہتر ہوں (مسنداحمد)"۔ نبی کریم ﷺ کے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ ہیں۔ آپﷺ کے دادا عبدالمطلب اہل قریش میں بہت معزز اور محترم شخصیت تھے اور اللہ تعالیٰ نے انکو بے پناہ خوبیوں اور رعب سے نوازا تھا۔
ہمارے پیارے آقا مدینے والے تاجدار خاتم النبین حضرت محمدﷺ کا سلسلہ نسب ماہر انساب و اہل سیر نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ رسول اللہ کا نسب پاک کا پہلا حصہ جس پر تمام علماء و مؤرخین کا اتفاق ہے وہ محمد ﷺ سے لے کر عدنان تک منتہی ہے۔ دوسرے حصہ میں بعض کا اختلاف ہے، بعض قائل ہیں اور کچھ نے توقف کیا ہے وہ عدنان سے حضرت ابراہیمؑ تک ہے اس میں کچھ تیس پشتیں بتاتے ہیں اور بعض چالیس تک اختتام کرتے ہیں۔ تیسرا حصہ میں زیاہ کا اختلاف ہے جو حضرت ابراہیمؑ سے حضرت آدمؑ تک جاتا ہے اور حضرت آدمؑ تک 81 واسطوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اسی لیے امام بخاریؒ نے آپ کا نسب پاک عدنان تک ہی ذکر فرمایا ہے۔
حضور اکرم کا نسب پاک والد ماجد کی طرف سے پہلا حصہ اس طرح ہے "حضرت محمدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف بن قصی بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نصر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان"۔ نسبِ پاک کا دوسرا حصہ عدنان سے اوپر کا ہے "عدنان بن ادد بن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن بوز بن قموال بن اُبی بن عوام بن ناشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن ظابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن عبقی بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یخزن بن یلحن بن ارعوی بن عیض بن دیشان بن عیصر بن افناد بن ایہام بن مقصر بن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضتہ بن عرام بن قیدار بن سیدنا اسماعیلؑ بن سیدنا ابراہیمؑ "۔
تیسرا اور آخری حصہ حضرت آدمؑ تک ہے "آزر (تارخ) بن ناحور بن ساروع بن فالخ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوحؑ بن لامک بن متوشلخ بن اخنوح (کہا جاتا ہے کہ یہ ادریسؑ کا نام ہے) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن آنوشہ بن شیثؑ بن آدمؑ"۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے شجرہِ نسب یہ ہے "حضرت محمدﷺ بن آمنہ بنتِ وہب بن عبدالمناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ۔ آقاﷺ کے والدین کا نسب کلاب بن مرہ "پر آ کر مل جاتا ہے اور آگے چل کر دونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں، "حضرت جبریلؑ نے عرض کیا! یارسول اللہﷺ میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمدﷺ سے بہتر کسی کو پایا او ر نہ ہی مین نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا"۔
رحمتِ دوعالمﷺ کے والدِ گرامی کا نام سیدنا حضرت عبداللہؓ اور والدہ ماجدہ کا نام سیدتنا بی بی آمنہؓ ہے۔ آپﷺ کے والد ماجد کا وصال 25 سال کی عمر میں شام سے واپسی پر مدینہ میں ہوئی اور دارالنابغہ میں مدفون ہیں جبکہ والدہ ماجدہ کا وصال مبارک حضرت سیدنا عبداللہؓ کی قبرِ انور کی زیارت سے واپسی پرمقامِ ابواء پر ہوئی اور سیدتنا اُمِ ایمن بھی آپ کے ساتھ تھیں اور ابواء کے مقام پر ہی آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔ آقا ﷺ امِ ایمن کو بھی ماں کا رتبہ دیا کرتے اور کہا کرتے"اُمِ ایمن میری حقیقی ماں کے بعد میری ماں ہیں"۔
آپﷺ کے دادا کا نام شیبہ، کنیت ابو حارث اور ابوبطحاء جبکہ لقب عبدالمطلب اور فیاض ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے پانچ شادیاں کی، رسول اللہ ﷺ کی دادی جان کا نام فاطمہ بنت عمرو بن عائدمخزومیہ، نانا جان کا نام وہب اور نانی جان کا نام برہے۔ حضور ﷺ کے رضاعی والدین میں ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ، سیدہ حلیمہ سعدیہؓ اور سیدنا حارثؓ شامل ہیں۔ آپﷺ کے چچا کی تعدا د 9,10 اور 12 بتائی جاتی ہے جن کے نام یہ ہیں"حارث، حمزہ، زبیر، ابوطالب، مقوم، ابولہب، حجل، مغیرہ، مصعب، عباس، ضرار، عبداللہ" جبکہ آپﷺ کی کل چھ پھوپھیاں ہیں۔ آقاﷺ کے چچا زاد بھائیوں کی تعدادکم و بیش 27 کے بنتی ہے۔
آقا کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات کی تعداد 11ہے جن کے اسماء مبارک سیدہ خدیجہ بنت خویلدؓ، سیدہ سودہ بنت زمعہؓ، سیدہ عائشہ بنت ابوبکرؓ، سیدہ حفصہ بنت عمرؓ، سیدہ زینب بنت خزیمہؓ، سیدہ ام سلمہ (ہند) بنت ابی امیہؓ، سیدہ زینب بنت حجشؓ، سیدہ جویریہ بنت حارث بن ضرارؓ، سیدہ رملہ (ام حبیبہ) بنت ابو سفیان ؓ، سیدہ صفیہ بنت حئی بن اخطبؓ، سیدہ میمونہ بنت حارثؓ ہیں۔ نبی کریمﷺ کی حقیقی اولاد میں تین بیٹے سیدنا قاسم بن سیدہ خدیجۃالکبریٰؓ، سیدنا عبداللہ (طیب و طاہر) بن سیدہ خدیجۃالکبریٰؓ، سیدنا ابراہیم بن سیدہ ماریہ قبطیہؓ ہیں اور چار بیٹیاں سیدہ زینب بنت سیدہ خدیجۃالکبریٰؓ، سیدہ رقیہ بنت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ، سیدہ ام کلثوم بنت سیدہ خدیجۃالکبریٰؓ، سدہ فاطمۃ الزہرہ بنت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے نسب پاک اور خاندان نبوت کا مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے رسولﷺ پر لامتناہی درورو سلام نازک فرمائے اور آپ کے، خاندانِ اور اصحاب اور متعلقین پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ اللہ تعالیٰ تمام امتِ محمدیہ کو سیرت رسول ﷺ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو رسول اللہﷺ، اہلبیت اطہارؓاور اصحابؓ کی محبت و مودت عطا فرمائے۔

