Aaqa Ki Aamad Marhaba (3)
آقا کی آمد مرحبا (3)

آقائے دو جہاں، پیکرِ نورِ مجسم، شاہِ بنی آدم، سیدِ عرب وعجم حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذاتِ بابرکات اور سیرت پاک ازل سے ابد تک تمام زمان و مکان کے لیے رشدوہدایت کا سرچشمہ ہے۔ کائنات کی ہر شے سرکارِ کائنات کے حسن و جمال کی گرفت میں ہے اور ہر وقت مدحت و رفعتِ شانِ مصطفی میں مصروف ہے۔ میرے آقا کے اسمِ مبارک کی رفعتیں، بلندیاں اور عظمتیں سب سے بلند و بالاہیں اور کائنات کی تمام عظیم ہستیاں آپ کے ذکے کے سامنے پست ہیں۔
آج تک کسی بھی ذی روح کو یہ مقام حاصل نہ ہوا، نہ ہے اور نہ ہی ہوگاکیونکہ آقا کا ذکرِ مبارک فرش سے عرش تک بلند ہے۔ زماں و مکاں کا کوئی ایسا گوشہ نہیں حبیبِ خدا کے ذکر سے خالی ہو کیونکہ خود رب کائنات نے کہہ دیا کہ وَرَفَعنا لَک ذِکرَک ایسا عمل ہے جو ہر وقت جاری ہے۔ کرہِ ارض کا چپہ چپہ میرے آقاکے اسمِ مبارک کی پکار سے گونج رہا ہے۔ امام اہلسنت احمد رضاخانؒ نے ذکرِ مصطفی کی بلندیوں کو اپنی نعت میں اسطرح بیان کیا ہے:
ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر بول بالا ہے تیرا، ذکر ہے اونچا تیرا
مٹ گئے، مٹتے ہیں، مٹ جائیں گے اعدا تیرے نہ مٹاہے، نہ مٹے گا چرچا تیرا
امتِ مسلمہ کو اپنی خوش نصیبی پر فخر کرنا چاہیے کہ ہم اس عظیم ہستی اور سردارِ انبیاء کی امت ہیں جن کے ذکر کو خود خالقِ کائنات نے عظیم رفعتیں اور بلیندیاں عطا کی ہیں۔ آپ ﷺ کی شانِ مبارک اپنوں اور غیروں، مسلم و غیرمسلم سب نے اپنے اپنے انداز میں نعتیں، قصیدے، مضامین اور سیرت کو مختلف زبانوں میں پیش کیا ہے۔ یہ شانِ مدحت آج تک کسی اور کے حصے میں نہ آئی ہے اور نہ ہی آئے گی۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیلؑ سے آیت "ورفعنا لک ذکرک" کا بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا" اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا"۔ جب ہم غور کریں تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کلمہ، اذان، تکبیر، نماز، ممبرومحراب، خطبوں، نعتوں، قرآنِ پاک، حج وعمرہ نیز کوئی ایسی عبادت نہیں جہان رسول اللہ ﷺ کا ذکر نہ آیا ہو۔ آقا ﷺ کی فضیلت اور بلندیِ ذات اس بات سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے آپﷺ پر ایمان لانے کا عہد لیا۔ مظفر واثی نے آقا کی مدحت اس انداز میں کی:
میں ہوں قطرہ، تو سمندر میری دنیا تیرے اندر
سگِ داتا میر ا ناتا نہ ولی ہوں، نہ قلندر
تیرے سائے میں کھڑے ہیں میرے جیسے تو بڑے ہیں
کوئی تجھ سا نہیں بے شک ورفعنا لک ذکرک
حضور انورﷺ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پر ایمان لانا اور اطاعت کرنا لازم قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے اور ہر وقت اللہ کی عبادت کرتا رہتا ہے مگر سرکارِ کائنات محمد مصطفی ﷺ پر ایمان نہیں لاتا یا محبت و عقیدتِ رسول ﷺ کو صرفِ نظر کرتا یا اس میں کمی کرتا ہے تو اسکی تمام عبادات رائیگاں جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ االلہ تعالیٰ نے اپنے نام کی طرف آپﷺ کے نام کی نسبت کی جبکہ حضورﷺ کے علاوہ باقی تمام انبیاء کو ان کے اسماء سے مخاطب کیا۔
میرے کریم آقا کا ذکر ہمیشہ سے بلند ہے اور تا قیامت بلند رہے گا۔ آج تلک جتنے بھی منافقین و منکرین آئے جنھوں نے آپﷺ کی ذاتِ گرامی اور ذکر پر حملے کئے اور عظمتِ مصطفی کم کی ان سب کو منہ کی کھانی پڑی اور ان کا انجام عبرت کا نشان بن گیا اور جس جس نے آقاﷺ کی ناموس کے لیے اپنی جان قربان کی وہ آج بھی دینا کے لیے باعثِ فخر اور زندہ و جاوید ہو گئے۔ اعلحضرت امام احمد رضا خانؒ نے اسکو اس طرح شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے:
توُگھٹائے سے کسی کے نہ گھٹاہے نہ گھٹے گا جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف آپ کی شان کے مطابق بیان کرنا قطعاََ ناممکن ہے کیونکہ حقیقتِ مصطفویﷺ تک رسائی حاصل کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ فرمانِ رسولﷺ ہے کہاکہ " اے ابو بکر! قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میری حقیقت میرے رب کے سواکوئی دوسرا نہیں جانتا"۔ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے طرف سے آقاﷺ کی عزت و عظمت کو چار چاند لگ رہے ہیں۔ نوری فرشتے ہمہ وقت حضورِ اکرم ﷺ پر درودوسلام کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ ذکرِ مصطفیﷺ ازل سے بلند ہے اور ابد تک بلند ہی رہے گا۔
یہ ایسا مبارک ذکر ہے کہ جو بھی اہلِ ایمان اس کو بلند کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عطا اور مصطفی کریم ﷺ کی نگاہِ کرم نوازی سے دنیا و آخرت میں بلند ہو جاتا ہے۔ آقاﷺ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے ساری کائنات کے سردار ہیں کوئی بھی آپ کی مدحت ورفعتِ شان کے بیان کا حق ادا نہیں کر سکتااور اس بات پر اکتفا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد اگر کسی کا رتبہ بلند ہے تو وہ بس میرے مدینے والے تاجدار، دو جہانوں کے مالک و مختار حضرتِ محمدﷺ کی ہی ذات بابرکات ہے۔
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

