Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Aaqa Ki Aamad Marhaba (2)

Aaqa Ki Aamad Marhaba (2)

آقا کی آمد مرحبا (2)

جیسے ہی ماہ میلاد کا چاند نظر آتا ہے تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور خاتم النبینﷺ کے جشن کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں سراپا رحمت، سراپا شفقت، سراپا عبدیت، سراپا معرفت، سراپا حسن و جمال، سراپا صداقت، سراپا نورانیت، سراپا انصاف، سراپا عفت وحیا، سراپا شجاعت، سراپا حکمت اور سراپا اخوت آقائے دوجہاں رحمتِ عالمیاں، جانِ جہاں، جانِ ایماں، شفیع المذنبین، انیس الغربین، سراج السالکین، محبوبِ رب العالمین حضرت محمد مصطفیﷺ اس جہاں میں جلوہ افروز ہوئے۔

آقا ﷺ کی ولادتِ بسعادت عام الفیل کے سال، پیر کے دن، بارہ ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 کو عرب دیس کے شہر مکہ میں ہوئی۔ یہ عشاقِ رسول ﷺ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور 12 ربیع الاول کو"عیدمیلاالنبیﷺ" قرار دیا گیا کیونکہ اس سے بڑی خوشی اور عید کسی مسلمان کے لیے ہو ہی نہیں سکتی۔ آج 1447 ہجری کو میرے پیارے آقا ﷺ کا 1500واں میلاد منایا جا رہا ہے۔ ان مبارک ایام میں عوام و خواص آقاﷺ پر دردو وسلام کے نذرانے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آقاﷺ کی سیرت کوبیان کرتے تاکہ عوام ماہِ میلاد میں زیادہ سے زیادہ سیرتِ رسول ﷺ سے آگاہی دے کر ان کے دلوں میں محبتِ رسولﷺ کو راسخ کیا جا سکے۔ اس نعمتِ عظمیٰ پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے کیونکہ رحمت اللعالمین اپنی امت پر بہت ہی مہربان اور شفیق ہیں۔ اس ماہِ مبارک کے کچھ تقاضے ہیں جسے ایک سچے عاشقِ رسولﷺ کو زندگی کے ہر قدم پر اپنائے رکھنے کی ضرورت ہے اور سیرتِ رسولﷺ کا عملی نمونہ ہونا چاہیے اور اسکی جھلک ہمارے ہر عمل سے نظرآنی چاہیے۔

ماہِ میلاد کا تقاضہ ہے کہ ہم محبتِ رسول ﷺ اور سیرتِ رسولﷺ کے پیکر بن جائیں اور ظاہری خوشی کا مظاہرہ کرنے کا ساتھ ساتھ ہمیں باطنی طور پر بھی اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں آقاﷺ کی قولی اور عملی سیرت کو اپنانا ہوگا تاکہ ہمارے کردار، گفتار اور اعمال سے نظر آئے کہ ہم خاتم النبینﷺ کے عاشق ہیں۔ ہمیں اپنے دلوں میں رسول اللہﷺ کی سچی اور حقیقی محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں ظاہری و رسمی محبت کا شائبہ نہ ہو کیونکہ محبوبِ خداﷺ کی محبت ہی جزوِ ایمان اور کامیابی کی ضامن ہے۔

میرے پیارے مدینے والے سے رشتہ سب رشتوں سے بڑھ کر ہے اور کوئی بھی دنیاوی تعلق، رشتہ، مال و متاع اس تعلق پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مسلمان آقا ﷺ کی محبت و عقیدت کو صرفِ نظر کرتا یا کم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسکو اپنے ایمان کی حفاظت کرنے اور اپنے اس عمل کو فوری ترک کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ "تم فرماؤ اگر تمارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اسکی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا"(التوبۃ، 24)۔

علامہ قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کے لازم ہونے، فرض اور اہم ہونے اور آپﷺ کے اس محبت کے مستحق ہونے کے بارے میں ترغیب، تنبیہ اور دلیل و حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ بے شک مومن وہی ہے جو آقا ﷺ سے حقیقی اور بے لوث محبت کرتا ہے اور اسے ہر چیز سے اونچا رکھتا ہے اورایسا مومن ہی سنتِ رسولﷺ کی حقیقی شیرینی پاتا ہے اور اپنا مقام جنتِ اعلی میں حاصل کر لیتا ہے۔

آقا کی ولادت کا مہینہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم سنتِ رسولﷺکو مکمل طورپر اپنائیں اور زبان سے بلند و بانگ دعوے کرنے کی بجائے عملی زندگی میں نبوی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ ایک مسلمان کا رول ماڈل صرف اللہ کے محبوب کی ذاتِ اقدس ہی ہونی چاہیے کیونکہ خالقِ کائنات ارشاد فرماتاہے کہ میں نے اپنے محبوب کو ساری کائنات کے لیے اسوۃ و نمونہ بنا کر بھیجا ہے۔ "بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے" (الاحزاب، 21)۔ اتباعِ رسول ہی کامیابی کی ضمانت اور محبتِ رسول کو جلا دینے کا ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے " اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گااور اللہ بخشنے والا مہربان ہے" (اٰلِ عمران۔ 31)۔ اس لیے ماہِ ربیع الاول ہر سال تقاضہ کرتا ہے کہ دنیاوی غلامی کی زنجیروں سے نکل کر غلامیِ رسول کو اپنا لیں جو کہ راحت و سکون اور کامیابی ہے۔ ایک مسلمان کو اپنی تمام تر خواہشات پسِ پشت ڈال کر صرف اور صرف حضورِ اکرم ﷺ کی پیروی کرے اور پنی زندگی کوآقا کی شریعت و تعلیمات پر قربا ن کر دے اور یہی کامل مومن ہونے کی علامت ہے۔

غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں
غلامیِ رسول میں موت بھی قبول ہے

جو ہو نہ عشقِ مصطفی تو زندگی فضول ہے
ڈھلاہے اس کے رنگ میں قریب اسکے جو گیا

ملا ہے اک با ر اُسے غلام اُس کا ہوگیا
و ہ ایسا خوش بیان ہے وہ ایسا خوش اصول ہے

ماہِ ربیع النور اہلِ ایمان سے متقاضی ہے کہ انسانیت کی بھلائی اور خیر کے کاموں میں کر حصہ لے اور دنیا والوں کے سامنے آقا ﷺ کے مکارمِ اخلاق کو عملی طور پر پیش کرے۔ ہمیں ایسے اخلاق اپنانے ہوں گے جو اخلاقِ رسولﷺ کے مطابق ہوں اور دنیا والے ہمیں سنتِ رسولﷺ کا نمونہ جانیں اور ہمارے عمل سے دینِ اسلام کی طرف راغب ہوں۔ ہمیں جھوٹ، رشوت، غیبت، سودوربا، دھوکہ و فریب، بے پردگی، فحاشی و عریانی، ظلم و جبر، قتل وغارت جیسے گناہوں اور رذائلِ اخلاق سے بچنا ہوگا۔ اس کے برعکس ہمیں معاشرے میں پیارو محبت، عدل و انصاف، سچائی و راست بازی، صبر و تحمل، ایفائے عہد، امانت و دیانت، تواضع و انکساری جیسے مکارمِ اخلاق کوانفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنانا ہوگا۔ تمام مکاتبِ فکر کو ملکر اتحاد، اخوت، ہمدلی، رحمدلی اور محبتِ انسانیت کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا اور سب کو ایک ہو کر ترقی کی راہوں کی طرف گامزن کرنا ہوگاتاکہ مسلمان عزت واقتدار سے روئے زمین پر خلافت سے ہمکنارہوں۔

امتِ مسلمہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس عظیم ہستی کے یومِ ولادت کے تقاضوں کو سمجھیں اور عملی نمونہ بنیں تاکہ ہمارا معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بنے۔ محافلِ میلاد کو ہر قسم کی بدعات و منکرات سے پاک ہونا چاہیے، مرد و زن کا بلکل اختلاط نہ ہو۔ محفلِ میلاد کے نام پر غیر شرعی محافل مثلاََ مرد و زن کا اختلاط، رقص و سرور اور میوزک کے انعقاد کو علماء اور حکومتِ وقت کو مل کر روکنا ہوگا۔ تمام مسلمانوں کو مل کر حضورِ اکرم ﷺ کی سیرت و محافلِ میلاد ماننے کی ضرورت ہے کیونکہ آقا کی شخصیت اور محبت ہی وہ واحد نظریہ ہے جو ساری امت کو ایک جگہ اکھٹا کرتی ہے جبکہ دشمن کبھی نہیں چاہتا کہ مسلمان متحد ہوں۔

دشمن کی ہر وقت یہی کوشش ہے کہ وہ مسلمانوں کے دلوں سے آقاﷺ کی محبت کو کم کرے جس کے لیے وہ آئے دن فتنہ بازیاں کرتا اور اپنی تمام ترتوانائیاں اور سرمایہ خرچ کرتا ہے۔ اس لیے ایک مسلمان کو ایسی چیزوں پر نظر رکھنی ہوگی اور ہر حال میں نبی کریمﷺ جڑے رہنا ہوگا۔ ماہِ میلاد اسی محبت اور عقیدت کو مضوط بناتاہے اور ہماری زندگیوں میں نبوی تعلیمات کو عملی جامع پہناتا ہے۔ ماہِ میلاد اور خاص کر 12ربیع الاول عشاق کے لیے یومِ عید ہے جس دن مسلمان اظہارِ تشکر اور اظہارِ مسرت کے طور پر مناتے ہیں۔ امتِ مسلمہ پر بدرجہ اَتم یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آقاﷺ کا میلاد اس طرح منائیں کہ چاردامِ عالم میں میٹھے میٹھے مصطفی ﷺ کا نام گونج اُٹھے، بقول اقبالؒ

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

ہمیں آقا ﷺ کی میلاد کا جشن مناتے ہوئے اخلاص و للہیت، اسلامی تعلیمات کو مد نظر رکھنا چاہیے اور ہر اس کام سے بچنا چاہیے جو میرے پیارے رسولِ مکرم ﷺ کی دل آزری کا باعث بنے۔ اگر محافلِ میلاد صدق و اخلاص پر مبنی ہوں تو نبی پاک ﷺ کی بارگاہ میں پذیرائی اور مسرت کا باعث ہوتی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan