Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Aaqa Ki Aamad Marhaba (12)

Aaqa Ki Aamad Marhaba (12)

آقا کی آمد مرحبا (12)

اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسانِ عظیم ہے کہ ہمیں نہ صرف اہلِ ایمان میں سے بنایا بلکہ اپنے پیارے محبوب حضرت محمد ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی اس عنایت پر ہم جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ امتِ محمدیہ ﷺ میں شامل ہونے کے بعد اب ہم پر ایسے احکامات لازم ہو جاتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر نا ہم پر فرض ہو جا تا ہے۔ اگر ہم ان احکاماتِ شریعہ اور نصاحِ بنی ﷺ کو اصلی طور پر اپنا لیں تو ہم دین و دینا میں کامیاب و کامران ہو سکتے ہیں۔

ہمارے پیار نبی سید المرسلینﷺ نے ہمیں ایسی باتیں بتائی اور سکھائی ہیں کہ اُن پر عمل دونوں جہانوں کی کامیابی کا باعث ہے۔ میرے آقا کی ساری زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے اور سیرتِ رسولﷺ ہی آج کے اِس پُرفتن دور میں ہمارے لیے رہنما اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں بہت سے انبیاءؑ کو اس دنیا میں بھیجا، سب سے آخرمیں ہمارے پیارے آقا ﷺ کو معبوث فرمایا۔ جب دینِ اسلام مکمل ہو چکا تو ہمارے آقاﷺ کی دنیا (جو کہ میرے آقا ﷺ کے لیے بنائی گئی) میں تشریف آواری کا مقصد پورا ہو چکا تو آپﷺ کے ظاہری وصال کا وقت آ گیا۔

حضورِ اکرم ﷺ نے اپنے ظاہری وصال بارے مختلف مواقعوں پر ایسی باتیں بتائیں جن سے میرے آقا نے اللہ تعالیٰ کی عطا سے غیبی خبردے دی۔ حجتہ الوداع کے موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا "اِس سال کے بعد میں تم سے ملاقات نہ کر سکوں گا (تاریخ طبری)"۔ اس کے علاوہ ماہِ صفر11ہجری کے آخری ایام میں جنت البقیع تشریف لائے آپﷺ نے ارشاد فرمایا، "مجھے دینا کے خزانے عطا کیے گئے، اس دنیا میں ہمیشہ رہنا اور جنت عطا کی گئی۔ پھر ان دنوں میں سے اور رب سے ملاقات و جنت کا اختیار دیا گیا تو میں نے دینا کی بجائے رب سے ملاقات اور جنت کو اختیار کیا (مسندِ امام احمد، 15997)"۔ میرے پیارے آقاﷺ ماہِ صفر کے آخر میں طبیعت علیل ہو ئی، جب مرض بڑھ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہِ کا ئنات (رضی اللہ عنھا) کو خود اپنے وصال کی خبر دی کہ اِسی مرض میں میرا وصالِ ظاہری ہو جائے گا (بخاری، 4433)"۔

وصالِ ظاہری کے وقت میرے آقا ﷺ نے کچھ نصحتیں اور عمل کیے جو امت کے لیے مشعلِ راہ بنے۔

1) نماز کو قائم کرنے اور غلاموں سے حسنِ سلوک کی تلقین کی اور رسول اللہﷺ نے مرضِ وصال میں خود 40غلاموں کو آزاد کیا۔

2) دنیار و درہم ہو راہ خدا میں خرچ کرنا، گھر میں 7دینار تھے، ام المومنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنھا) سے فرمایا کہ دینار لاو کہ میں راہِ خدا میں خرچ کر دوں، پھر حضرت علی(ؓ) کے ذریعے اُن کو خرچ کر دیا۔

3) جب مرض کی شدت تیز گئی تو خاتون جنت اور میرے آقاﷺ کی لختِ جگر سیدہ بی بی فاطمہ زہرہ (رضی اللہ عنھا) کو بلایا اور اُن کے کان میں سرگوشی کی وہ رونے لگیں اور دوبارہ بلایا تو پھر وہ مسکرانے لگیں۔ بعد میں بی بی سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پہلی بار مجھے رسول اللہﷺ نے بتایا کہ اسی مرض میں میرا وصال ہو جائے گا تو میں رونے لگی اور پھر جب یہ بتایا کہ میں (بی بی فاطمہ (رضی اللہ عنھا) وفات پانے کے بعد سب سے پہلے رسول اللہﷺ سے ملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔

4) مرض کے آخری ایام، رسول اللہﷺ 5 ربیع الاول کو حجرہِ ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنھا) تشریف لے گئے (جو ان کے باری کے دن تھے) پھر آخری ایام وہیں گزارے۔

5) جب شدتِ مرض زیادہ ہوگیا تو اپنے یارِ غار حضرت ابوبکر الصدیق (ؓ) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو آپ نے آقا ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں 17نمازیں پڑھائیں۔

6) مرضِ وصال میں رسول اللہﷺ نے 8ربیع الاول کو بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا "اگر میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا، میں نے ہمیشہ دنیا میں رہنے اور رب کی ملاقات میں سے ملاقات کو پسند فرمایا، ابوبکرکے سوا سب لوگوں کی مسجد میں کھلنے والی کھٹرکیوں کو بند کر دو، لوگوں میں صحبت اور مال میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں، اَنصار کے بارے میں تمہیں نیکی کی وصیت کرتا ہوں کہ اُن میں سے نیکوکار کو قبول کرو اورزیادتی کرنے والے سے درگزر کرو(سیرت سیدالانبیاء)"۔

7) نمازِ جنازہ بارے نصیحتیں فرمائیں کہ "جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے غسل دینا، کفن پہنانا، اِسی گھر میں میرے قبرکے کنارے پر اسی چارپائی پر مجھے لٹادینااور کچھ وقت کے لئے حجرہ سے باہر نکل جاناکیونکہ سب سے پہلے میری نمازِ جناہ سیدالملائکہ حضرت جبریلِ امینؑ، پھرمیکائیلؑ، پھر اسرافیلؑ اور پھر ملک الموت اپنے لشکروں کے ساتھ پڑھیں گے۔ اُس کے بعد میرے اہلبیت سے مرد، پھر عورتیں، پھر گروہ در گروہ داخل ہو کر نمازِ جنازہ ادا کرو (سیرت سیدالانبیاء)"۔

8) سات کنووں کے پانی سے غسل دیا گیا۔

9) مسواک کا استعمال فرمایا۔

10) آخری دعا جو آپﷺ نے فرمائی وہ " اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرمااور رفیقِ اعلی (اللہ تعالی) سے مجھے ملا دے"۔

ایک میں حدیث میں رسول اللہﷺ نے حضرت ابوہریرہ (ؓ) کو کامیابی کی پانچ نصحتیں ارشاد فرمائیں جو وہ دوسروں تک پہنچا دیں۔ حضورﷺ نے حضرت ابوہریرہ (ؓ) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: "

1) شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے خود کو بچاو تو سب سے زیادہ عبادت گزار بندے بن جاو گے۔

2) اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر دل و جان سے راضی ہو جاو تو سب سے زیادہ غنا حاصل ہو جائے گی (لوگوں کے مال و منصب سے بے نیازہو جاو گے)۔

3) اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے برتاو کا معاملہ کروتو مومن بن جاوگے۔

4) دوسرے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔

5) زیادہ ہنسنے سے بچوکیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (جامع الترمزی، 2305)"۔

جب مرے آقاﷺ کا وصال ظاہری کا وقت قریب آیا تو ملک الموت نے اجازت مانگی تو آقا نے اجازت دی تو پھر روحِ مبارک قبض کر لی۔ ملک المکوت نے آج تک کسی سے روح قبض کرنے کی اجازت نہیں مانگی جو صرف اور صرف رسول اللہﷺ کا ہی خاصہ ہے۔ ام المومنین سیدہ زاہدہ طاہرہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنھا) فرماتی ہیں، "میں نے سرکارِ دوعالمﷺ کو سہارا دیا ہوا تھا، آپ ﷺ کا وصال میری گود میں ہوا اور میرے جحرے میں روحِ مبارک جسد اطہر سے پرواز کر گئی"۔

حضور کا وصالِ ظاہری پیر کے دن 12ربیع الاول کو 63 سال کی عمر میں ہوا۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلو (ؒ) فرماتے ہیں"تحقیق یہ ہے کہ تاریخ وفات حقیقۃََ بحسبِ روہیت مکہ معظمہ ربیع الاول الشریف کی13 تھی، مدینہ طیبہ میں روہیت نہ ہوئی لہذا ان کے حساب سے 12ٹھہری۔ وہی روات نے اپنے حساب سے روایت کی اور مشہورومقبول جمہور ہوئی (فتاویہ رضویہ 26)"۔

انبیاء کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے

پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات
مثلِ سابق وہی جسمانی ہے

نبی پاکﷺ کی بعثت کامقصد انسانوں کی ہدایت واخلاقی تربیت کے ساتھ دعوتِ توحید اور انسانوں کو غلامی سے آزاد کروا کراللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کبریا ئی سے آشنا کراکردربدر سجدے کرنے کی بجائے خالق ومالکِ حقیقی سجدہ ریز ہونے کی تعلیمات دیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali