Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Aaqa Ki Aamad Marhaba (11)

Aaqa Ki Aamad Marhaba (11)

آقا کی آمد مرحبا (11)

ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیﷺ نے ذوالقعدہ 10 ہجری کو حج کا ارادہ کیا اور 25 ذوالقعدہ کو بعد از نمازِ ظہر روانہ ہوئے۔ جو آپ کا پہلا اور آخری حج تھا جسے "حج اسلام" اور "حج الوداع"کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس حج کے موقع پر آپﷺ نے ایک تاریخی، مثالی اور اولین انسانی، اسلامی، معاشرتی منشورپیش کیا جسے آخری حج کی مناسبت سے "خطبہ حجۃالوداع"کہا جاتاہے۔ آپ ﷺ نے یہ خطبہ 9 ذالحجہ 10 ہجری بروز جمعۃ المبارک کے دن دیا جو تمام انسانیت اور خاص کر مسلمانوں کے لیے ایک مکمل ضابطہِ اخلاق اورشمع راہ ہدایت ہے۔

اس خطبہ میں خود آقا ئے دوجہاں، رحمتِ عالمیاں ﷺ نے فرمایا "لوگو! میری بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یکجا ہو سکیں گے"۔ یہ ایک ایسا آفاقی پیغام تھا جس میں کسی گروہ، نسل، ذات کی حمایت اور نہ ہی ذاتی مفادات کی غرض و غایت کا شائبہ نظر آتا ہے۔ اس پیغام میں آقاﷺ نے انسانیت کی عظمت، احترام اور معاشرتی حقوق پر مبنی ابدی تعلیمات اوراصول عطا کیے۔ آپ ﷺ نے اپنا پیغام سب تک پہنچا دیا اور تمام شرکاء کو اس آخری اور آفاقی پیغام کو آنے والے لوگوں تک پہنچانا ضروری فرما دیا۔ اب ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ اس خطبے کے اہم نکات کواچھے سے دہرا کر دوسروں تک پہنچائیں کیونکہ یہ خطبہ اسلام کے سیاسی، جمہوری، معاشرتی، سماجی، تمدنی، معاشی اور مذہبی اصولوں کا ترجمان ہے۔

حج کے ان مبارک ایام میں ہی سورۃ الماہدۃکی آیت نمبر 3 نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسندکیا"۔ اس آیت کے متعلق حدیث کی مستند کتابوں بخاری اور مسلم میں آیا ہے کہ ایک یہودی امیر المومنین حضرت عمرِ فاروق کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا اے امیر المومنین آپ کی کتاب قرآنِ مجید میں ایک آیت ہے، اگر وہ ہم یہودیوں پر نازک ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن عید مناتے۔ حضرت عمر فارق نے اس سے فرمایا، کون سے آیت؟

اس یہودی نے آیت "الیوم اکملتُ لکم دینکم"پڑھی۔ آپ نے فرمایا، "میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے نازل ہونے کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں، وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا"۔ آپؓ کا ان ایام کو بیان کرنے کا مطلب تھا کہ وہ دن ہمارے یے عید ہے۔ اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ کسی دینی کامیابی کے دن اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کے شکرانے کے طور پر خوشی منانا جائزاور صحابہ اکرام سے ثابت ہے اور اسی طرح عیدِ میلاد النبی ﷺ منانا بھی جائز ہے کیونکہ کہ اس دن کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہم گناہگاروں کو میسر آئی۔

حجۃالوداع کی تفصیلات حضرت امام باقر جو کہ حضرت امام باقر کے والدِ گرامی خلیفتہ الرسول حضرت سیدناابوبکر لصدیق کی پڑپوتی کے خاوند ہیں نے صحابیِ رسول، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے تفصیلی واقع پیش کیا ہے۔ اس خطبہ کے شرکاء میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ اکرام شامل تھے۔

حج کا دن آقاﷺ اپنی اونٹنی مبارک قصویٰ پر میدانِ عرفات میں تشریف لائے جہان مسجدِ نمرہ واقع ہے۔ آپﷺ نے اپنی اونٹنی مبارک پر سوار ہو کر بطنِ وادی میں خطبہ ارشاد فرمایاجس میں زمانہِ جاہلیت کے تمام رسم و رواج کو ختم کر دیا اور انسانی عزت و حرمت پر مبنی اصولوں کے مطابق قواعد و ضوابط پیش کیے۔ آپﷺ نے خطبہ کا آغاز حمد و ثنائے باری تعالیٰ سے کیا اور اس کے بعد سب سے پہلے فرمایا"لوگو! میری بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یکجا ہو سکیں گے(غالباََ اس کے بعد میں حج نہ کر سکوں"۔

مساواتِ انسانی اور خشیتِ الہی کا تصور پپش کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ "تم لوگ سب ایک مرد اور عورت سے پیدا کیے گئے ہو اور تمہاری پہچان کی خاطر تمہیں جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے مگر تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ لہذا کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر کوئی ٖفضیلیت حاصل ہے، نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے، بزرگی اور فضیلت کاایک ہی معیار ہے اور وہ تقویٰ ہے۔ انسان سارے ہی آدم کی اولاد ہیں اور اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، خون ومال کے سارے مطالبے میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔ بس بیت اللہ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات علیٰ حالہ باقی رہیں گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی اور دینا کے دھوکے سے بچنے کے لیے آپﷺ نے فرمایا، "اے قریش کے لوگو! ایسا نہ ہو کہ اللہ کے حضور تم اس طرح پیش کیے جاو کہ تمہاری گردنو ں پر دینا کا بوجھ لدا ہوجبکہ دوسرے لوگ سامانِ آخرت لے کر پہنچیں ہوں اگر ایسا ہوا تو میں اللہ کے سامنے تمہارے کام نہ آ سکوں گا"۔

نسلی تفاخر، سود، جان و مال کے تحفظ اور انسانی حقوق کے حوالے سے آپﷺ نے فرمایا، "قریش کے لوگو! اللہ نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر و مباہات کی کوئی گنجائش نہیں"۔ پھر آپﷺ نے انسانی جان و مال کی حرمت کا بیان فرمایا"لوگو! تمہارے خون، مال اور عزتیں ایکدوسرے پر قطاََ حرام کر دی گئی ہیں۔ ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے اس دن کو اس ماہ مبارک کی اس شہر میں ہے۔ زمانہِ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب سے کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتاہوں وہ میرے خاندان ربیعہ بن الحارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون ہے جسے بنو ہذیل نے مار ڈالا تھا، اَب میں معاف کرتا ہوں۔ تم سب اللہ کے حضور جاؤ گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پُرس کرے گا۔ دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے میں ہی کشت و خون کرنے لگو۔ اگر اکسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچادے۔ اب دورِ جاہلیت کا سود کوئی حثیت نہیں رکھتا، پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے، اب یہ ختم ہوگیا ہے۔ لوگو ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں"۔

حقوق اللہ، قانون کی بالادستی، اطاعت اور انصاف قائم کرنے کے بارے میں آفاقی نکات ارشاد فرمائے "لوگو! اپنے اللہ کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، مہینے بھر کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی سے دیتے رہو، اپنے خدا کے گھر کا حج کرو اور اپنے اہلِ امر کی اطاعت کروتو اپنے رب کی جنت میں داخل وہ جاؤگے۔ میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں اگر اس پر قائم رہے تو تم کبھی گمراہ نہ ہ سکو گے اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلوسے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہیں باتوں کے سبب ہلاک کر دیے گئے۔ شیطان کو اب اس بات کی توقع نہیں رہ گئی کہ اب اسکی اس شہر میں عبادت کی جائے گی لکین اس بات کا امکان ہے کہ ایسے معاملات میں جنہیں تم کم اہمیت دیتے ہواس کی بات مان لی جائے اور وہ اس پر راضی ہے۔ اس لیے تم اس سے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرو۔ آگاہ ہو جاؤ! اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا، آگاہ ہو جاؤ! اب نہ باپ کے بدلے بیٹاپکڑا جائے گااورنہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا"۔

آقاﷺ نے خطبہ کے شرکاء سے اپنے حق کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے سوال کیا "اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (اللہ کے ہاں) سوال کیا جائے گا۔ بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے امانت (دین) پہنچادی اور آپ نے حقِ رسالت ادا فرما دیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی"۔

یہ سن کر آپﷺ نے انگشتِ شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ دعا فرمائی: "اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا"۔ آج کے دور میں جب ہم ان اصولوں کو دیکھتے ہیں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے تمام معمالات خطبۃ الوداع کے برعکس کر رہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں نفاذ شریعتِ محمدیﷺ کے لیے کام کریں اور اپنے آقاﷺ کے فرامیں اور آفاقی اصولوں کو اپنائیں۔ اس دورِ جدید میں بھی ہمیں حضورﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی اُسی طرح ضرورت ہے جس طرح دورِ ظلمت میں لوگوں نے اپنا کر ہدایت و روشنی حاصل کرکے دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل کیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan