Aaqa Ki Aamad Marhaba (10)
آقا کی آمد مرحبا (10)

ہمارے پیارے آقا، دو جہاں کے سردار، امام الانبیاء، فخرِ موجودات، باعثِ تخلیقِ کائنات حضرت محمد ﷺ کی پیدائش مبارک ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی۔ آپ ﷺ کی نورانی پیدائش سے کفر و باطل کی تاریکیاں چھٹ گئیں، رحمت و نور سے انسانیت کو ظلمتوں سے نجات حاصل ہوئی اور خزاں رسیدہ چہرے بہار کی آمدسے کھل کھلا اُٹھے۔ آپﷺ کی آمد سے کفر و شرک کے گھنے بادل چھٹ گئے۔ آپﷺ کی پیدائش کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی کثرت سے کیا گیا حتیٰ کہ عرب کے نجومیوں نے بھی آخری نبیﷺ کی آمد کے بارے اپنی قوم کو بتایا کہ وہ وقت قریب آ گیا جب نبی آخرزماں اس دنیا میں جلوہ افروز ہوں گے۔ عرب کے نامور شاعر اور مداح بارگاہِ رسول ﷺ حضرت حسان بن ثابتؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ "میں سات سال کا تھا کہ ایک یہودی اونچے ٹیلے پر چڑھ کر بلند آواز میں یہ کہہ رہا تھاکہ! اے یہودیو! آج رات ستارہِ احمد طلوع ہو چکا ہے جس میں وہ (آخری الزمان نبی محمدﷺ) پیدا ہوں گے"۔ اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ عرب کے لوگوں کا آپﷺ کی ولادت سے پہلے ہی احساس ہوگیا تھا کہ نبی آخرزماں آنے والے ہیں۔
آپﷺ کا اس دنیا میں ظہور طلوعِ صبح صادق کے فوراََ بعد ہوا، دن پیر کا اور 12 ربیع الاول عام الفیل تھا (بعض سیرت نگاروں نے 8 اور 9 ربیع الاول بھی لکھا ہے مگر اجماع 12 ربیع الال پہ ہے)۔ حضرت عمرو بن قتیبہ سے روایت ہے کہ والدہِ مصطفیﷺ فرماتی ہیں کہ جب ولادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو۔ اس دن سورج کو عظیم نور پہنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم نعمت پر دنیا بھر کی عورتوں کے مقدر بھی چمکا دیے اور انہیں بھی بیٹے جنے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں یومِ ولادت بے شمار آیات و واقعات رونما ہوئے مثلاَ ایوانِ کسریٰ لرز اُٹھا اور اُس کے چودہ کنگرے گر گئے اور ہزار سال سے جلتا فارسیوں کا آتش کدہ بجھ گیا۔ حضرت عبدالمطلب اس روز کعبہ معظمہ کے صحن میں رونق افروز تھے کہ یکدم انقلاب آگیا اور بت اوندھے منہ گر پڑے اور ساتھ ہی دیوارِ کعبہ سے ایک خوبصورت آواز گونجی "وہ مختار و مصطفی پیدا ہوگیا ہے جس کے ہاتھوں کفار کو شکست ہوگی"۔
اسی دوران غلام نے آکر خوشخبری سنائی، آپ فوراََ گھر پہنچے، نومولود کو کعبۃ اللہ میں لے گئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ جب یہ خبر یہودی عالم تک پہنچی تو و بے ساختہ کہہ اُٹھا، خدا کی قسم نبی اسرائیل کے گھر سے نبوت رخصت ہوگئی۔ اے قریش تمہیں مبارک ہو، اس(آقاﷺ) کے ذریعے تم ایسا غلبہ و اقتدار حاصل کرو گے کہ مشرق و مغرب میں اُن کا شہرہ ہوگا۔
حضورﷺ پید ا ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے آپ پاکیزہ بدن، ختنہ شدہ، چہرہ نورانی، آنکھیں سرمگیں، تیز بو کستوری کی طرح خشبودارجسم اور دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں"میں نے کھجور کی طرح لمبی عورتوں کو دیکھا جیسے قبیلہ عبد مناف کی عورتیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا، میں نے ان سے زیادہ روشن چہرے والی خوبصورت عورتیں نہیں دیکھیں۔ ان میں سے ایک آگے بڑھی میں نے اسکے ساتھ ٹیک لگا لی۔ پھر دوسری آگے بڑھی اس نے پینے کے لیے پاکیزہ مشروب پیش کیا جو دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا، پیار سے بولی پی لو، میں نے پی لیا، دوسری بولی اور پیو، میں نے اور پیا۔ میرے پوچھنے پر ان خوبصورت عورتوں نے بتایاکہ وہ حضرت آسیہؓ اور حضرت مریم (سلام اللہ علیہا) ہیں اور انکے ساتھ جنتی حوریں ہیں۔ اُم عثمان فاطمہ بنت عبداللہ الثقفیہؓ حضرت آمنہؓ کے پاس تھیں، فرماتی ہیں"میں نبی اکرمﷺ کی ولادت کے وقت حاضر تھی، میں نے دیکھا ہر چیز نور میں ڈوب گئی، گویا کائنات میں نور کا سیلاب آ گیا تھا۔ اجرامِ سماوی زمین کی طرف جھک گئے جیسے اسے بوسہ دینا چاہتے ہوں۔ یہ انقلاب صرف احسان نہ تھا بلکہ ایک حقیقت کی نمو دتھی"۔ حضرت آمنہؓ مزید فرماتی ہیں کہ "میں نے تین گڑے ہوئے جھنڈے دیکھے، ایک جھنڈا مشرق میں گڑا ہو اتھا، ایک مغرب میں اور ایک کعبہ کی چھت پر"۔
حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک روشن بادل ظاہر فرمایا جس میں روشنی کے ساتھ گھوڑوں کے ہنہنانے اور پرندوں کے اڑنے کی آوازیں اور کچھ انسانوں کی بولیاں تھیں۔ اعلان ہوا کہ نبی کریمﷺ کو مشرق و مغرب اور سمندروں کی سیر کراؤ تاکہ تمام کائنات کو ان کا حلیہ اور صفت معلوم ہو جائے اور ان کو تمام جاندار مخلوق کے سامنے پیش کرو، تمام انبیاء کے اخلاقِ حسنہ سے مزین کرو۔ پھر بادل چھٹ گئے اور ستارے قریب آ گئے اور اعلان کرنے والے نے اعلان کیا، واہ واہ کیا خوب محمد ﷺ کوتمام دینا پر قبضہ دے دیا اور کائنات کی کوئی شے باقی نہ رہی جو ان کے قبضہ اقتدار و اطاعت میں نہ ہو۔ پھر تین شخص نظر آئے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کا لوٹا، دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد اور تیسرے کے ہاتھ میں ایک چمکدار انگوٹھی تھی۔ انگوٹھی کو سات مرتبہ دھو کر نبی کریم ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت پر لگا دی گئی۔ پھر آپ کو ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر آپ کی والدہ ماجدہ کے سپرد کر دیا گیا (مدراج النبوۃ)۔
آمد مصطفیﷺ ہوئی، کفر روانہ ہوگیا
جس کے حضور ہو گئے، اُس کا زمانہ ہوگیا
آقا ﷺ کی آمد پر ساری کائنات میں نور کی برسات تھی اور ہر شے خوش تھی۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بنی کریم ﷺ کی پیدائش پر شکر ادا کرنا اور خوشی کرنا بہت ہی پسندیدہ عمل ہے۔ اس بات کا اندازہ اس واقع سے لگایا جا سکتاہے کہ ابو لہب جیسے کافر کو بھی میرے آقا کی ولادت کی خوشی میں اجر ملا۔ حضرت عروہؓ فرماتے ہیں کہ ثوبیہ پہلے ابو لہب کی لونڈی تھی۔ جب ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تو اس نے نبی کریمﷺ کو دودھ پلایا۔ جب ابولہب مر گیا تو اسے گھر والوں میں سے کسی نے(حضرت عباسؓ خواب برے حال میں دیکھا اور پوچھا مرنے کے بعد تیرے ساتھ کیا ہوا؟ ابو لہب نے جواب دیا تم سے بچھرنے کے بعد سخت عذاب میں پھنس گیا۔ سوائے اس کے کہ اپنے بھتیجے کی پیدائش کی خوشی میں ثوبیہ کو آزاد کرنے کے باعث دو انگلیوں سے پیر کے دن پانی دیا جاتا ہے(جس سے اشارہ کرکے میں نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا (بخاری)"۔ آقا ﷺ کی ولادت ہم گناہگاروں پر بہت بڑی نعمت ہے جس پر ہمیں شریعت کے دائرے میں رہ کرشکر و خوشی کا بھرپور اظہار کرنا چاہے۔

