Aaqa Ki Aamad Marhaba (1)
آقا کی آمد مرحبا (1)

کائنات کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک انسانیت پر ربِ کریم نے بے حد و بے حساب عنایات و انعامات فرمائے ہیں۔ ربِ کریم اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے اور اسکے یہ احسانات و انعامات مسلسل جاری و ساری ہیں کیونکہ اس کی صفت رحمن و رحیم اور رؤف و کریم ہے۔ ہمارے پیارے پروردگارنے آج تک ان تمام انعام و اکرام اور بیشمار نعمتوں کے باوجود کسی بھی نعمت پر احسان نہیں جتلایا۔ ہمارے رب عزوجل نے ہمیں تمام مخلوقات میں سے احسن طریقے پر پیدا فرمایا اور اشرف المخلوقات بناکر رشکِ ملائکہ بنا دیا۔ میرا پروردگار اتنا سخی اور رؤف و کریم ہے کہ اُسکے احسان و اکرام کی کرم نوازیاں ماننے اور نہ ماننے والوں دونوں کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر نعمتوں اور رحمتوں کی بارش ہر آن تواتر سے برس رہی ہے اور مسلمانوں کو اس رحمت سے بہت زیادہ حصہ عطا کیا گیا۔
ماہِ ربیع الاول کو اسلام میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس ماہِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اپنی سب سے محبوب ہستی کو انسانوں کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ آقا ﷺ کی ولادتِ باسعادت عام الفیل کے سال، پیر کے دن، بارہ ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 کوعرب دیس کے شہر مکہ 1500 سو سال پہلے ہوئی۔ انسانوں کے خود تراشیدہ قوانین کے سنگلاخ اور پتھریلی زمین سے بے آب و گیاہ وادیِ مکہ میں ایسی کونپل نے جنم لیا جس نے شجرِ سایہ دار بن کراللہ تعالیٰ کی سای مخلوق کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ صنم کدوں میں بت پاش پاش ہو گئے، نفرتیں اور عداوتیں انس و محبت میں بدل گئیں، سرکشی و نافرمانی تسلیم و رضا کے سانچے میں ڈھل گئیں۔
یہ امتِ مسلمہ کی امتیازی حثیت اور فخر ہے کہ ہمیں ہمارے پروردگار نے اس نعمتِ عظمی سے سرفراز فرمایا۔ یہ تمام نعمتوں سے اعلی اور واحد نعمت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان جتلایا اور فرمایا، "بیشک اللہ نے بڑا احسان کیا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتاہے اور انہیں پاک کرتاہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے"۔
اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر اپنا لطف وکرم فرمایا اور ایسی پاک ہستی کو بھیجا جس نے آکر بگڑے ہوئے حالات کو سنوار دیا اور ذلت و گمراہی میں گرے ہوئے انسانوں کو اپنی رحمت اور شفقت سے عظیم امت بنا دیا۔ آقاﷺ کی ذات ہی وہ مبارک ہستی ہے جن کے لیے ساری کائنات بنائی گئی اور ہمیں ان کا امتی ہونے کا شرف ملا۔ اب یہ اس امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم نعمت کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور رب کی اس کرم نوازی اور وسعادت پر خوش ہو کیونکہ اسی چیز کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، فرمایا "تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہترہے"۔ مفسرین کے فضل اور رحمت بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مراداسلام اور رحمت سے قرآن مراد لیا ہے، بعض کے مطابق فضل سے قرآن اور رحمت سے احادیث مرادہے۔ مفسرین نے فضل سے قرآن اور رحمت سے حضورِ پرنور محمدِ مصطفیﷺکا مفہوم لیا ہے۔
جب بھی ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں جذبہِ ایمانی اور تقویٰ و پرہیزگاری مزید بڑھ جاتی ہے۔ صدقہ و خیرات، ذکرواذکار، درودوسلام کے نذرانے عام دنوں سے بڑھ جاتے ہیں اور ہر طرف رنگ و نور کا سماں ہوتا ہے۔ ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہی موسمِ خزاں موسمِ بہار میں تبدیل ہو جاتاہے۔ مردو خواتین، نوجوان، بزرگ، بچے غرض ہر مسلمان آقائے دو جہاں ﷺ سے اپنی محبت اور والہانہ عقیدت کا اظہار کرتانظر آتاہے۔ آقا دوجہاں ﷺ کی محبت ہی اصل ایمان ہے اور اس کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن ہی نہیں، حدیث مبارکہ ہے"تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتاجب تک کہ میں اُسے اُس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں"۔
اس مبارک مہینے میں محافلِ میلاد کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے، نبی کریمﷺ پر درود و سلام کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں، جلوسِ میلاد نکالے جاتے ہیں جس میں امتی اپنے پیارے اور رحمت والے نبیﷺ پر نعتوں اور عقیدتوں کا اظہار کرتے ہیں اور دینا والوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم اپنے آقا ﷺ کے غلام ہیں اور انکی ناموس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ان بابرکت محافل اور جلوسوں سے مقصود مسلمانوں کے دلو ں میں اپنے بنی ﷺکی محبت و عقیدت کو راسخ کرنااور سب کو آقاﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی طرف دعوت دینا اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم نعمت کے ملنے پر شکر ادا کرنا ہے۔
اس بابرکت مہینہ ہے جس میں خزاں رسیدہ چمن میں بہار آ جاتی ہے کیونکہ محسنِ انسانیت، خاتم النبین، آقائے دوجہان حضرت محمدﷺکی دنیا میں تشریف آوری کا مہینہ ہے۔ ماہ ربیع الاول امتِ مسلمہ سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگیاں سیرتِ رسولﷺکے مطابق بسر کریں اور اپنے دلوں میں محبتِ رسولﷺ کو ہر وقت تروتازہ اور زندہ رکھیں۔ آقا ﷺ کے اسوہِ حسنہ کو اپنا کر دنیا و آخرت میں سرخروہ ہو جائیں کیونکہ حدیثِ رسولﷺ ہے کہ "جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا"۔
ہمیں چاہیے کہ ہم تمام دنیوی بتوں اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر تعلیماتِ نبویﷺ پر عمل پیرا ہوکر غلامیِ رسولﷺ میں آجائیں۔ ماہِ ربیع الاول کی آمد ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں سیرتِ رسولﷺ اپنائیں اور اپنے اذہان و قلوب کو محبتِ رسولﷺ سے راسخ کر لیں۔ ماہِ میلاد کا پیغام ہے کہ ہم انسانیت کی فلاح و بہبود اور ان کو آسانیاں دینے میں اپنا کردار ادا کریں اور سیرتِ رسولﷺ کے ہر ہر پہلو کو عملی طور پر اپنائیں۔ لہذا حقیقی عاشقِ رسولﷺ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اور دنیوی و اخروی زندگی کی بہتری کے لیے ہر مسلمان کوچاہیے کہ وہ خاتم النبین ﷺ کی مبارک سیرت کا مطالعہ کرے اور دل و جان سے اس پر عمل کرے۔
مطالعہِ سیرتِ رسولﷺ کا سب سے بڑا فائدہ ہے کہ اس سے دلوں میں عشقِ رسولﷺ کی شمع جلتی رہتی ہے اور یہی شمع تاریک قبر و پل صراط پر ہمارے کام آئے گی جب کوئی بھی شفاعت کرنے والا نہ ہوگا پھر آقا کریمﷺ کی محبت ہمیں میدانِ حشر میں کامیاب کر دے گی، بزبانِ اعلحضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ:
آج لے ان کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

