Zameen
زمین
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک گاؤں کے لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کی کل ملا کر سو ایکڑ کے قریب زرخیز زمین تھی۔ جو سال میں گندم اور چاول کی دو فصلیں لاتی تھی۔ جس کی کل آمدن کو ہم پچاس لاکھ روپے فرض کر لیتے ہیں۔ وہ پچاس لاکھ جب گاؤں کی مارکیٹ میں گردش کرتے تو معشیت کا پہیہ خوب چلتا تھا۔
اس کے علاؤہ گاؤں میں ایک ماربل فیکٹری، رائس مل، جوتے بنانے کا چھوٹا سا کارخانہ اور اس کے علاؤہ کئی چھوٹے موٹے پروڈکشن یونٹ تھے۔ جن کی پیداوار نہ صرف گاؤں میں باہر سے سرمایہ لاتی بلکہ گاؤں کے لڑکے بالوں کو گھر کے قریب روزگار کے مواقع بھی دستیاب ہوتے۔ زمینداری کا ایک ذیلی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر گھر میں مرغی، بکری، بھینس وغیرہ کی صورت میں لائیو سٹاک کی پوری خاموش صنعت ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔
جہاں سے آنے والا دودھ، گوشت اور انڈے لوگوں کی معشیت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایک دن وہاں سے ایک پراپرٹی ڈیلر کا گزر ہوا۔ جب اس نے گاؤں کی ہموار اور انتہائی کم دام زرعی زمین قیمت دیکھی تو اس کی رال ٹپکنے لگی۔ اس نے وہیں ڈھابے پر چائے پیتے پیتے اس گاؤں میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کھڑی کرنے کا پلان تیار کر لیا۔
ہر جگہ ایسے لوگ ہوتے ہیں۔ جو اپنی جائے پیدائش اور آباء کے پیشے سے بیزار ہوتے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلر نے ایسے لوگوں سے اونے پونے داموں زمینیں خریدنے شروع کر دیں۔ اس سے پہلے وہاں زمین بیچنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایک وقت آیا کہ جب سو میں سے تیس ایکڑ زمین اس پراپرٹی ڈیلر نے خرید لی اور اس کے پلاٹ بنا کر لوگوں کو بیچنے شروع کر دیے۔
پلاٹ خریدنے کی ترغیب دینے کے لیے وہ لوگوں کو پلاٹ قسطوں پر بیچ رہا تھا۔ اور ساتھ یقین دہانی کروا رہا تھا کہ قسطیں پوری ہونے پر یہی پلاٹ بے شک مجھے پچاس فیصد منافع پر بیچ دینا۔ گاؤں کے صاحب ثروت لوگوں کا جو اضافی پیسہ فصلوں کے لیے جدید زرعی آلات خریدنے، سبزیوں اور فروٹ کے نئے فارمز بنانے اور صنعتی یونٹس کھڑے کرنے میں خرچ ہو رہا تھا وہ اب پلاٹ خریدنے میں خرچ ہونے لگا۔
جس کی وجہ سے گاؤں کی فصلوں کی پیداوار گرنے لگی۔ جب آمدن گھٹی تو لوگوں نے شاپنگ اور ضروریات زندگی پر کم خرچنا شروع کر دیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ پروڈکشن یونٹس کی ڈیمانڈ میں کمی ہو گئی دوکانداروں کی سیل بھی گھٹ گئی۔ مجبوراً کئی لوگوں کو اپنے پیداواری یونٹس بند کرنے پڑے، کئی دوکانداروں کو اپنے کاروباری مشکلات سے نکلنے کا حل اپنی وراثتی زمین بیچنے میں ہی نظر آیا۔
یوں دوسرے سال کے اختتام تک گاؤں کی کل زمین کے پچاس فیصد حصے پر ہاؤسنگ سکیم بن چکی تھی۔ ڈیمانڈ میں اضافے کی وجہ سے پہلے پہلے پلاٹ خریدنے والوں نے خوب منافع کمایا تھا۔ اب وہ لوگ کروڑ پتی بن چکے تھے۔ لیکن ان کے کروڑوں کا گاؤں کی اکانومی کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ کیوں کہ ان کا پیسہ مزید زمینیں خریدنے میں استعمال ہو رہا تھا۔
دوسری طرف ضرورت کے تحت زمینیں بیچنے والے اپنے سرمایہ کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے اور پرتعیش اشیا خریدنے کے لیے خرچ کر رہے تھے۔ پرتعیش اشیا، بجلی اور پیٹرول پر چلتی ہیں۔ اور خرچ میں مستقل اضافے کا موجب بنتی ہیں۔ تیسرے سال تک باقی ماندہ صنعتی اور کاروباری مراکز نے سرکاری اہلکاروں کی رشوت ستانی۔
حکومت کی کاروبار دشمن پالیسیوں اور پراپرٹی کی دنیا میں بغیر کسی محنت کے ہونے والے دن دگنے رات چوگنے منافع کی وجہ سے اپنا سارا سرمایہ سمیٹ کر پلاٹ خرید لیے۔ یوں گاؤں کی سو ایکڑ زمین میں سے 80 ایکڑ پر ہاؤسنگ سکیم بن گئی۔ ظاہر ہے بیس فیصد زیر کاشت رقبہ گاؤں کے کل آبادی کی خوراک کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا تھا۔
اس لیے مجبوراً پہلے گندم اور چاول اور پھر دودھ انڈے اور گوشت کے لیے بھی گاؤں دوسری بستیوں کا محتاج ہوتا چلا گیا۔ صنعتی یونٹس بند ہونے سے نہ صرف نوکریاں ختم ہو چکی تھیں بلکہ اب ہر چیز دوسری جگہوں سے منگوانی پڑ رہی تھی۔ لیکن گاؤں کے لوگ اسی میں خوش تھے کہ ان کے پلاٹ کی قیمت دن رات بڑھ رہی ہے۔