Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rayees Ahmad Kumar
  4. Intesab Aalmi Ka Khususi Shumara Dehli Khwateen Ke Naam

Intesab Aalmi Ka Khususi Shumara Dehli Khwateen Ke Naam

انتساب عالمی کا خصوصی شمارہ دہلی کی خواتین افسانہ نگاروں کے نام

ڈاکٹر سیفی سرونجی کی سرپرستی اور آفاق سیفی و استوتی اگروال صاحبہ کی ادارت میں نکلنے والا سہ ماہی انتساب عالمی، اردو کا مانا جانا رسالہ ہے جو اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے اور اسے معیار بخشنے میں تن من سے جڑا ہے۔ تسلسل کے ساتھ نکلنے والا یہ رسالہ، کہنہ مشق ادباء کے ساتھ ساتھ نوآموز ادباء کی نگارشات کو بھی جگہ فراہم کرکے انہیں حوصلہ افزائی کرنے میں کنجوسی نہیں کرتا۔

حال ہی میں اس رسالہ کا تازہ شمارہ جنوری تا مارچ 2025، دہلی کی خواتین افسانہ نگاروں کے نام، ایک خصوصی شمارے کے تحت شائع کیا گیا ہے۔ 240 صفحات پر مشتمل یہ رسالہ، دلکش سرورق کے ساتھ چھاپا گیا ہے جس پر دہلی کی چودہ مستند خواتین افسانہ نگاروں کی تصاویر سجائی گئی ہیں۔ رسالہ کے پہلے باب میں سیفی سرونجی نے ساتھ کتابوں پر مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ اسلامی علوم و فنون کی داستان پارینہ از پروفیسر محی الدین بمبئی والا۔۔ بقول سیفی سرونجی، پروفیسر بمبئی والا نے کئی کتابیں لکھیں ہیں، اسلامی علوم و فنون کی داستان پارینہ میں، اسلامی علم و فنون سے متعلق مقالات کو یکجا کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اسلامی علوم و فنون کی معلومات کا ایک ایسا نایاب خزانہ ہے کہ آئندہ نسلوں کو ہمیشہ آشنا کرتی رہے گی۔

چہک از کوثر صدیقی۔۔ یہ کتاب مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے جو نویں جماعت سے لی کر بارہویں جماعت کے بچوں کے لئے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں شامل عنوانات پیار، محبت اور ہمدردی کے جزبات بچوں میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ اپنا اپنا سچ از دیپک بدکی۔۔ یہ ان کا تازہ ناول ہے جس میں کشمیر کی جھیلیں، سرسبز وادیاں، جہلم، ڈل، کھیل کود، رہن سہن اور دیگر بے شمار پہلوؤں کا زکر کیا ہے۔ کشمیر عوام کے مسائل اور ہندو پنڈتوں کے کشمیر چھوڑنے کے حالات ناول کے کرداروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

فکشن تنقید و تجزیہ از احمد رشید۔۔ یہ کتاب تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے اور بقول سیفی سرونجی، متاثر کرنے والی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں شامل مضامین کسی شخصیت پر مبنی نہیں ہے، نہ ان میں شخصیت نوازی کا عنصر ہے۔ آئینہ ادراک، یہ سید نفیس دسنوی کے نثری مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ ہے۔ پہلی تنہائیاں از شفق سو پوری۔۔ شفق سوپوری ایک شاعر، ناول نگار اور ماہر موسیقیات ہیں۔ پہلی تنہائیاں ان کا شعری مجموعہ ہے۔ بیسویں صدی شمع افروز زیدی۔۔ یہ وہ واحد رسالہ ہے جس نے ایک سے بڑھ کر ایک افسانہ نگار پیدا کئے ہیں۔ بیسویں صدی میں چھپنا ایک ادیب کے لئے باعث فخر ہوتا ہے کیونکہ اس رسالہ میں صرف معیاری نگارشات کو ہی جگہ ملتی ہے۔ اس رسالہ نے چھیانوے بہاریں دیکھیں ہیں۔

انتساب عالمی کے اس خصوصی شمارے پر نعیمہ جعفری پاشا کا بہترین، مدلل اور مفصل مضمون قارئین کی نگاہوں سے گزرتا ہے انہوں نے دہلی کے ادیبوں خاص کر خواتین ادباء پر کھل کر بات کی ہے اور ان کے کارناموں کو صفحہ قرطاس پر لایا ہے۔ بلقیس ظہیر الحسن، ان کا شمار دہلی کی معتبر خواتین ادباء میں ہوتا ہے۔ شاعر، افسانہ نویس، ڈرامہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک ترجمہ نگار کے طور پر بھی ادبی حلقوں میں جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ بچوں کے لئے بھی آپ نے کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔ اس خصوصی شمارے میں ان کا پہلا افسانہ پھسلو شامل کیا گیا ہے۔

پھسلو کا شوہر جھیل کاٹ رہا تھا تو وہ خود دوسری شادی کرنے پر آمادہ نظر آرہی تھی۔ کملا، شالینی، بہادر سنگھ وغیرہ کے کرداروں کے اردگرد اس خوبصورت کہانی کو تخلیق کیا گیا ہے۔ ناصرہ شرما، اردو اور ہندی زبانوں کے ادب میں ناصرہ شاہ یکساں طور پر معروف ہے۔ بطور ایک صحافی، افسانہ نویس، ناول نگار، مکالمہ نگار، مضمون نگار اور مترجم آپ ادبی حلقوں میں ایک معروف شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ آپ کو فارسی، اردو، انگریزی، ہندی اور پشتو زبانوں پر مکمل دسترس ہے۔ اس شمارے میں ان کا افسانہ کاغذی بادام شامل کیا گیا ہے۔ یہ نہایت ہی عمدہ اور خوبصورت کہانی ہے جو عزیز ڈنگروال، اس کی اہلیہ پختون خانم اور ان کی اکلوتی بیٹی گل بانو کے اردگرد بنی گئی ہے۔

غربت کی وجہ سے عزیز ڈنگروال نہ اپنی بیوی کا علاج کروا سکتا تھا نہ ہی دو وقت کی روٹی کا انتظام کر سکتا تھا۔ تو اس نے بیٹی کو جس کی عمر اس وقت صرف دس سال تھی کسی امیر گھر میں بطور گھریلو ملازمہ رکھنے پر اپنے دل و دماغ کو آمادہ کیا۔ غربت اور کسمپرسی کی روداد اس افسانے میں خوب جھلک رہی ہے اور ساتھ ہی اپنی اکلوتی بیٹی کی یاد انہیں خاص کر پختون خانم کو اندر ہی اندر کیسے کھائے جا رہی تھی کہانی میں دلکش انداز بیاں سے پیش کیا گیا ہے۔

نگار عظیم، نگار عظیم نثر اور شاعری دونوں صنفوں میں ایک معتبر نام تصور کی جاتی ہے۔ وہ ایک افسانہ نگار بھی ہیں اور دہلی ایڈمنسٹریشن میں بہ حیثیت ایک مدرس بھی اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔ مادری زبان، ان کا وہ افسانہ ہے جو اس شمارے کی زینت بنا ہوا ہے۔ ایک سینسیس کرنی والی خاتون ملازمہ کو کس قدر ایک ان پڑھ اور غیر سنجیدہ عورت پریشان کرتی ہے افسانے میں خوبصورتی کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ نہ وہ اسے تعاون کرتی ہے اور نہ ہی صحیح اعداد و شمار لکھواتی ہے بلکہ اپنی من مرضی کے مطابق سب کچھ لکھواتی ہے یہاں تک کہ ان کی مادری زبان اردو تھی مگر وہ عربی لکھوانے کی ضد کرتی تھی۔ جن لوگوں کو مردم شماری پر مامور کیا جاتا ہے انہیں کس قدر ستم ظریفی کا سامنا کرنا پڑتا ہے افسانہ کے زریعے سمجھا جاتا ہے۔

عزرا نقوی، عزرا نقوی ایک شاعر، افسانہ نگار، ترجمہ نگار اور کالم نویس کے طور پر ادبی حلقوں میں معروف ہیں۔ انہوں نے کئی تصانیف تخلیق کئے ہیں اس کے علاوہ اس وقت وہ ریختہ ویب سائیٹ سے منسلک ہیں۔ آسمان میں کھڑکی، یہ ان کا اس شمارے میں شامل افسانہ ہے۔ افسانہ کی کہانی سارہ اور اس کی دادی کے گرد گھومتی ہے۔ سارہ اپنی دادی کا ہر لحاظ سے خیال رکھتی ہے۔ اس کے ماں باپ بھی اسے ہر وقت اس کا خاص خیال رکھنے کی ہر وقت ترغیب دیتے ہیں معمولی سی لیت لعل پر اسے ڈانٹ ڈپٹ پڑتی تھی۔ دونوں ایک ہی کمرے میں کئی سالوں سے ایام گزار رہے ہیں جس وجہ سے ان کے درمیان ایک منفرد لگاو پیدا ہوا ہے۔ سارہ اسے فیس بک پر تمام رشتہ داروں کی تصاویر دکھا کر اس کے غم ہلکے کرنے میں مدد کرتی ہے۔ اس طرح کا لگاو اور عمر رسیدہ اشخاص کا خاص خیال رکھنا اب ہمارے سماج میں تقریباً غائب ہی نظر آتا ہے۔ گھر میں والدین اور بزرگوں کے ساتھ بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کے بجائے اب انہیں اولڈ ایج ہومز کے سپرد کیا جاتا ہے۔

شمع افروز زیدی، شمع افروز زیدی ایک صحافی، تنقید نگار اور افسانہ نگار کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آپ بیسویں صدی رسالہ کی ادارت کرتی ہیں اس کے علاوہ آپ متعدد رسالوں کی نائب مدیر بھی رہ چکی ہوں۔ آپ نے بہت سی تصانیف تخلیق کیں ہیں جو ادبی حلقوں میں کافی پزیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ پندرہ سال بعد، ان کا افسانہ اس رسالہ میں شائع ہوا ہے۔ اب تک جو افسانے میں نے اس شمارے میں پڑھے ہیں، یہ سب سے بہترین اور لاجواب ہے۔ کہانی کا اختتام زبردست ہے اور قاری کو آخر تک بانھ کے رکھتا ہے۔ ایک ادیب کی کہانی جو کافی شہرت حاصل کر چکا تھا مگر اپنی بیوی کو راستے کا پتھر سمجھ کر موت کے گاٹھ اتارا تھا کیونکہ اس کی سہیلی سے وہ باقی کی ازدواجی زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ پندرہ سال بعد جب اسے انٹرویو کے لئے بلایا گیا تو اسے یہ پتہ بھی نہیں چل پڑا کہ انٹرویو کون لے رہی تھی۔ پندرہ سال بعد اس نے صوفیہ کو پہچانا بھی نہیں جس کو اس نے اسپتال پہنچاکر خدا کے رحم و کرم پر چھوڑا تھا۔

چشمہ فاروقی، چشمہ فاروقی مشہور رسالہ خاتون مشرق کی ادارت نبھا رہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہندی اخبار روپ کی شبھا بھی بھی شائع کرتی تھی۔ اس نے چار افسانوی مجموعے اردو ادب کو دئیے ہیں۔ ان کا ایک افسانہ دین دھرم سے ہٹ کر اس خصوصی شمارے کا حصہ بنا ہے۔ کہانی کے خاص کردار کندن، عدیل، ورما انکل اور آنٹی ہیں۔ کہانی میں بین مذہبی بھائی چارے کی جھلک دکھ رہی ہے، دونوں خاندان ایک دوسرے کے بہت قریب تھے آپس میں سگے بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ عدیل کی شادی کرائی گئی اور ورما انکل نے سونے کا سیٹ اس کی بیوی کے حوالے کیا اور اسے کہہ ڈالا کی کندن کی بیوی آپ ہی لائیں گے۔ مگر کندن کاروبار کے سلسلے میں اسپین چلا گیا اور وہاں کا ہی ہوگیا یہاں تک کہ شادی بھی وہاں ہی رچائی۔

علاوہ ازیں نعیمہ جعفری پاشا کا اب کے برس، سیدہ نفیس بانو کا خالی کمان، ترنم جہاں شبنم کا کوئے یار میں، غزالہ قمر اعجاز کا کنگھا، رخشندہ روحی کا کہاں ہے منزل راہ تمنا، ناظمہ جبیں کا جو اماں ملی تو کہاں ملی اور سفینہ بیگم کا عفریت افسانہ اس شمارے کی زینت بنے ہوئے ہیں جنہیں قاری پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس شمارے میں مضامین، منظومات، افسانے افسانچے، آپ بیتی، انٹرویو اور کئی تبصرے شامل کئے گئے ہیں۔

Check Also

Israr Ul Haq Majaz Se Majaz Lakhnavi Tak Ka Safar

By Rehmat Aziz Khan