Tanzuli Ki Bunyadi Wajuhat
تنزلی کی بنیادی وجوہات
پاکستان وجود میں آیا تو مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایسی بنی جو برطانیہ کے لیے تزویراتی طور پر انتہائی اہم تھی۔ برطانیہ برصغیر کے شمال میں سوشلسٹ روس کے بے پناہ اثر کو ہر قیمت پر مقید کرنا چاہتا تھا۔ یوں پاکستان ایک بفر اسٹیٹBuffer Stateکے طور پر سامنے آیا۔ برطانیہ، دوسری جنگ عظیم کے بعد اقتصادی طور پر اس قدر کمزور ہو چکا تھا، اس کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ برصغیر کو اپنے زیر تسلط رکھ سکے۔
ہمارے ملک میں کیونکہ تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے لہٰذا سچ اور حقیقت کو نعروں اور جذباتیت کے غلاف میں لپیٹ کر چھپایا جاتا ہے۔ تلخ بات یہ بھی ہے کہ یہ ادنیٰ کام، بھرپور طریقے سے کامیاب بھی ہو چکا ہے۔ فہمیدہ طبقات جانتے ہیں کہ تقسیم برصغیر کے معاملات کو غیر جانبدار ذرایع سے پرکھیں تو یہ بات بھی فوراً سمجھ میں آ جاتی ہے کہ امریکا بھی تقسیم ہند کے حق میں تھا۔ جواہر لال نہرو اور ان کے کانگریسی ساتھی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کرتے رہے تھے، وہ برسوں جیل میں رہے تھے، تمام قیادت جیلیں کاٹ چکی تھی۔
لہٰذا تقسیم ہند کے بعد، انھوں نے امریکا کے زیر اثر آنے سے انکار کر دیا۔ نہرو کے خیالات زمانہ طالب علمی ہی سے سوشلزم کی طرف مائل تھے لہٰذا اس نے روس کے ساتھ گہرے باہمی تعلقات کی بنیاد رکھی اور ہندوستان کے لیے خوب فائدہ اٹھایا۔ ہندوستان کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ جواہر لعل نہرو کو تقریباً سترہ برس کا دورانیہ بطور وزیراعظم ملا۔ اس کے برعکس قائداعظم محمد علی جناح کو قدرت نے وہ موقع ہی عطا نہیں کیا کہ وہ تحریک پاکستان کی فکراور بنیاد کے مطابق آئین سازی کرتے اور پالیسی لائن ڈرا کردیتے۔
بیماری نے ان کو مہلت ہی نہیں دی کہ وہ پاکستان کو آئین دے پاتے اور ریاستی و حکومتی سسٹم کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر سکتے۔ یہ ایک المیہ ہے جس کا ہمارے ملک کو حد درجہ نقصان ہوا۔ محترم لیاقت علی خان کو شہید کرنے کے لیے ایک افغانی فرد کو استعمال کیا گیا۔ لیکن پس پردہ مقاصد کچھ اور تھے، غور کریں، سید اکبر نام کے اس مکروہ کردار کو زندہ گرفتار کرنے کے بجائے اس وقت کے ایک پولیس افسر نجف خان نے موقع پر گولی مار کر ہلاک کردیا۔ یہاں آپ کے ذہن میں ایک حد درجہ نازک نکتہ راسخ کرنا چاہتا ہوں۔
یہ پولیس افسر لیاقت علی خان کی سیکیورٹی کا انچارچ تھا اور ایوب خان سے مراسم بھی رکھتا تھا۔ یہ 1957کا ذکر ہے۔ یہ وہی ایوب خان تھا جسے قائداعظم پسند نہیں کرتے تھے، لیکن وہ اس ملک کا حاکم بن گیا۔ قائد ملت، لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہمارے ملک میں آمریت کا آغاز ہوگیا۔
ایوب خان صدر پاکستان بھی تھا اور آرمی چیف بھی تھا۔ پاکستان، امریکا کے کیمپ کا حصہ انھی کے دور آمریت میں بنا۔ ایوب خان سفارت کاری کی باریکیوں سے ناواقف شخص تھا۔ اس میں وہ اہلیت ہی نہیں تھی کہ دیوار کی دوسری طرف دیکھ سکتا۔ بفراسٹیٹ کا تصور اس دور میں حد درجہ مضبوط ہوا۔ روس نے 1978 میں افغانستان پر عملاً قبضہ کر لیا۔ اس وقت پاکستان پرجنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ وہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ بھٹو جیل میں تھا۔
ضیاء الحق نے قومی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے، افغانستان میں مذہبی اشرافیہ کا ساتھ دیا جو امریکا کے تعاون سے سوشلسٹ افغان حکومت کے خلاف جہاد کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کر رہے تھے۔ ضیاء الحق کا مقصد صرف اپنے غیر قانونی تسلط کو ایک جواز فراہم کرنا تھا۔ ضیاء الحق نے امریکی معاونت کے ذریعے ایک ایسا جال بنا، جس کی بنا پر روس 1988-89میں افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اس طویل جنگ نے روس کو اقتصادی طور پر اتنا نقصان پہنچایا کہ انخلا کے صرف دو سال بعد یعنی 1991 میں وہ حصوں بخروں میں تقسیم ہوگیا۔ سوویت یونین صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
مگر یہاں ایک حد درجہ مشکل سوال پیدا ہوتا ہے کہ روس کے ختم ہونے کے بعد، پاکستان کا کیا مستقبل ہوگا؟ ضیاء الحق اور دیگر حکمرانوں نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی۔ امریکا نے روس کو تباہ کرنے کے بعد، پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ رکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ امریکا نے جو کام ہم سے لینا تھا، و ہ مکمل ہو چکا تھا۔
اس سچ کو ہمارے ملک میں ایک عجیب سے بیانیہ کے ذریعے چھپایا گیا کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ بڑی زیادتی کی اوراسے منجدھار میں چھوڑ کر چلا گیا۔ مگر سنجیدہ لوگ جانتے تھے کہ ہم سے جو کام لینا تھا، وہ لے لیا گیا، امریکا اور مغربی یورپ نے جو گرانٹس اور امداد بھی دینی تھی، وہ دے چکا تھا، اس کے بعد، ہماری اسٹرٹیجک پوزیشن کمپرومائز ہونا شروع ہوگئی۔ ادھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع ہوئی، اس دس سالہ سیاسی جنگ میں ملک مزید تباہ ہوگیا تاہم یہ دو خاندان سیاست میں حد درجہ مقتدر ہو گئے۔
امریکا کو دوبارہ پاکستان کی ضرورت 2001 میں پڑ گئی۔ جب نائن الیون کا واقعہ ہوا۔ اور اس کی ذمے داری القائدہ پر ڈالی گئی۔ اتفاق دیکھیے، اس وقت بھی پاکستان میں آمریت تھی، جنرل پرویز مشرف حکمران تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ یوں افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف نئی جنگ شروع ہوئی۔
طالبان کی حکومت ختم کردی گئی، اس جنگ کے ہمارے ملک پر انتہائی مضر اثرات پڑے۔ ہمارے ملک میں بم دھماکو ںاور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امریکا نے افغانستان سے 2020-21میں انخلا کیا۔ افغان طالبان دوبارہ افغانستان پر قابض ہوگئے لیکن ہمارے گلے پڑی ہوئی دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ جس کا خمیازہ ہم تاحال بھگت رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ اس کے متعلق کچھ بھی کہنا غیر یقینی ہے۔
حقیقت کو قوم کو بتانے سے آج بھی اسی طرح گریز کیا جارہا ہے جیسے ستر برس پہلے کیا جا رہا تھا۔ سچ یہ ہے کہ امریکا نے ہمیں پوری طرح استعمال کرکے مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔ اسے اب ہماری ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پالیسی ساز، اس امریکی رجحان کو سمجھ چکے ہیں۔ مگر برملا اعتراف کرنا از حد مشکل ہے۔ مگر اب امریکا کو پاکستان کی ایک اور طرح کی ضرورت پڑ چکی ہے۔ وہ ہے ہندوستان کو چین کے برابر کھڑا کرنا۔
ادھر پاکستان کے سیاسی طفل مکتب، ہندوستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کا بھونپو بجا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ معاملات طے کرنا سیاسی قوت کے اختیار سے باہر ہیں۔ اس میں طاقتوروں کا ہی عمل دخل ہے۔ شومیِ قسمت دیکھیے کہ جب امریکا کو ہندوستان کے زاویے سے پاکستانی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کا وزیراعظم عمران خان حد درجہ بے لچک رویے کا مالک نکلا۔ لہٰذا پاک بھارت تعلقات بہتر ہونے کے بجائے اتنے کشیدہ ہوگئے کہ نوبت لڑائی تک پہنچ گئی۔
آج بھی ہماری سیاسی قیادت ملکی مفادات کے مطابق آگے بڑھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہے، ریاستی ادارے بھی اس کی پشت پر ہیں۔ آج امریکا پاکستان کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضہ جاتی پیکیج کے معاملے میں رکاوٹ نہیں بن رہا ہے لیکن ہم پر دباؤ بھی بڑھا رہا ہے۔ چین اور بیلا روس کی کمپنیوں پر پابندی لگنے کا مقصد صرف ایک ہے کہ پاکستان مشکل میں آ جائے۔ یہ امریکا کی حکمت عملی ہے۔ اب وقت فیصلہ کرے گا کہ ہمارے ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔ موجودہ صورت حال میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
دیکھا جائے تو اس وقت ہمارا ملک اپنی سالمیت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں معاملات حد درجہ دشوار بنا دیے گئے ہیں۔ قتل و غارت، بدامنی، علاقائی تعصب کو ہر طریقے سے ہوا دی جا رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے غیرملکی قوتوں کے اشارے پر رقص کررہی ہیں جب کہ عوام اس سارے معاملے میں خاموش تماشائی ہیں۔ اس خطرناک معاملے کا حقیقی نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ سیاسی قیادت اور ریاستی ادارے، اس مشکل صورتحال سے کس طرح ملک کو باہر نکالتے ہیں؟ یہ وقت بتائے گا، باقی سب کہانیاں ہیں؟