1.  Home/
  2. Blog/
  3. Raja Najm Ul Hassan/
  4. Shareek e Hayat

Shareek e Hayat

شریکِ حیات

بطور مسلمان ہم بھی وحدت کے قائل ہیں۔ یہ شرک سے ہمیں خواہ مخواہ کا واسطہ پڑ گیا ہے۔ اب بات کو شرک سے شریک تک لے جانے کی ناتواں کوشش کرتے ہیں۔ حیات کو بھی ساتھ ملا لیتے ہیں کیونکہ تنہائی کا سفر بوریت سے بھرپور ہوتا ہے۔ اب فلسفہ شریکِ حیات کا موضوع منتخب کر ہی لیا ہے تو طبع آزمائی کی جہد بھی کرتے ہیں۔

معاشرتی تصورات کے مطابق شریکِ حیات سے مراد جنس مخالف یعنی بیگم ہے۔ میرا موضوع بیگم یا بیوی ہرگز نہیں ہے۔ یہاں حیات سے مراد زندگی ہے اور شریک سے مراد وہ افراد ہیں جو اس سفر زندگی میں کہیں نہ کہیں ہمارے ہمسفر ہوتے ہیں۔ ان میں وہ افراد شامل ہیں جو آپ کے ہم جماعت یا ہم سفر ہوتے ہیں۔

اب یقیناً ہم شریکِ حیات کی اس اصطلاح کو اپنے رنگ میں ڈھال چکے ہیں۔ اگر گاڑی کے سفر میں ہمسفر مسافر اچھی خصلت کے مالک ہوں تو سفر اچھا بسر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ ہم جماعت، کسی دفتر کے کولیگ یا پھر ساتھ میں کوئی بھی کام سر انجام دینے والے افراد صاحب اعلیٰ ظرف ہوں تو سفر حیات اس قدر پر سکون ہوتی ہے جیسے ریشمی بستر پر شائستگی کا احساس۔

اس کالم کا محرک آج کا ایک اہم واقع ہے۔ جب 12 بجے کے قریب بندہ ناچیز سورج کی گرم تپش لینے کے بعد اپنے ہاسٹل کی چھت سے واپسی پر ٹھنڈے کمرے میں داخل ہوا تو حیراں و پریشاں رہ گیا۔ کمرے کے فرش پر بچھی قالین اس قدر تازہ محسوس ہو رہی تھی کہ شاید آج ہی بازار سے لائی گئی ہو۔ بستر عین اسی حالت میں موجود تھا جس حالت میں چھوڑ کر گیا تھا۔ پھر اچانک کمرے کا دروازہ حسب معمول اپنی چیں چیں کی آواز کو بلند کرتے ہوئے کھولا تو میرے روم میٹ یعنی بابر علی محو گفتگو ہوئے۔ بولے نجم بھائی کمرے میں کوئی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہی تھا کہ میری زبان بے قراری سے گویا ہوئی کہ بابر بھائی آپ نے تو اس غریب خانہ کو شیش محل بنا دیاہے۔

اس تمام تر واقع کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بابر علی جیسی شخصیات بھی موجود ہیں جو مکمل تبدیلی لانے کے بعد پوچھتی ہیں کہ تبدیلی محسوس ہوئی یا نہیں اور ایسے افراد یقیناً مثبت تبدیلی لاتے ہیں جو دوسروں کے لیے فائدے مند ہوتی ہے۔ میں آج یہی دیکھا ہے کہ پاکستانی ہمیشہ یہی کہہ رہے ہوتے ہیں یہ کام توں کر دے اور یہ کام اس کو کہہ دے لیکن بابر علی نے یہ نہیں کہا کہ نجم بھائی آپ کمرے کی صفائی کردیں بلکہ اس نے یہ کام خود ہی کر لیا۔

اگر ہمارے معاشرے میں ہمارے اردگرد کے افراد کے لیے ہم خود ہی کچھ کر دیں اور ان کو ایک اچھے شریکِ حیات کا تصور دے دیں تو یقیناً پاکستان میں حقیقی تبدیلی آسکتی ہے۔ ہمیں وہ شریکِ حیات بن کر دیکھنا ہوگا جیسے ہر کام کہنا نہ پڑے بلکہ ہم ایک دوسری کی مجبوریوں اور کوتاہیوں کو سمجھیں اور مثبت انقلاب برپا کریں۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر سفر میں اچھے شریکِ حیات عطاء فرمائے اور ہماری ذات کو بھی ان کے حق میں بہتر فرمائے۔

Check Also

Insani Zindagi Par New Liberalism Ke Nafsiyati Masaib

By Mansoor Nadeem