Urne Na Paye Thay Ke Giraftar Hum Hue
اڑنے نا پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
آخری مغل بادشاہ کو جب انگریز نے تخت سے اتار کر گرفتار کرلیا اور اقتدار ختم کرنے کے ساتھ ساتھ پابند سلاسل کردیا تو اس نے کیا خوب کہا تھا۔۔
صبح کے تخت نشین شام میں مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں حالات کو بدلتے دیکھا
بہادر شاہ ظفر حکمران کیسا تھا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن وہ شاعر کمال کا تھا۔
کچھ ایسا ہی پاکستان میں سب سے زیادہ مقبولیت کے دعویدار عمران خان کے ساتھ ہوا ہے، ایک وقت وہ تھا کہ 9 مئی سے پہلے اس کے گھر کے باہر ملنے کے لیے ترسنے والوں کی لمبی قطاریں، دعوے، نعرے اور ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ وہ کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہاں سننے والا کوئی نہیں، وہ اکیلے بیٹھ کر ان سب کا راہ دیکھ رہے ہیں جو "عمران تیرا ایک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا" کی گردان سنایا کرتے تھے۔
جو کل تک تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھکتے تھے وہ آج عیب جوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ جو کل تک انہیں"محب وطن" ثابت کرنے کے لیے سارے ملک کو غدار اور میر جعفر و میر صادق کی سندیں بانٹا کرتے تھے آج وہی فرد جرم عمران خان پر تحریر کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
جس عمارت کی بنیاد ایسی مانگی تانگی کی اینٹوں سے رکھ کر چھت کسی خیر خواہ سے "چھپر" مانگ کر ڈالی گئی ہو اس عمارت میں بیٹھ کر ان تمام خیرخواہوں کا للکار دینے کا انجام یہی ہوتا ہے جو پاکستان تحریک انصاف کا ہوا۔ کیا تحریک انصاف کے"ٹکرکے لوگ" محض دو چار دن کی گرفتاریوں یا محض سخت حالات کے خوف کی وجہ سے ہی "زرد پتوں" کی طرح بکھر رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ محض "گرمیِ موسم" نے انہیں رخ بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ لوگ تھے ہی کرائے دار اگر یہ حالات نا بنتے تو تب بھی ان میں سے اکثریتی طبقہ ایک اشارے پر اڑان بھرنے کو تیار بیٹھا ہوا تھا۔
سوال مگر اب ہر چہار سو یہ ہے کہ اکیلے رہ جانے والے عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کا جائزہ لینے کے لیے عمران خان کی زندگی کو 3 حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔
پہلا حصہ وہ ہے جس میں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور کھیل کے میدان میں کامیابیاں سمیٹ کر اپنا نام بنایا اور خود کو منوایا۔ دوسرے دونوں حصے ان کی سیاست کے ادوار پر منقسم کیے جاسکتے ہیں۔ دوسرے حصے میں وہ 1996 سے لے کر 2011 تک کا ایک طویل سفر ہے جس میں وہ نظر آتے ہیں اور انکے ساتھ بھی پارلیمان کی حد تک وہ ہی نظر آتے ہیں۔ ہاں مگر کچھ مخلص دوستوں کا مخلصانہ ساتھ اس عرصے میں انہیں میسر رہتا ہے۔۔
تیسرے حصہ 2011 سے اب تک کا ہے۔ 1996 میں انہوں نے پارٹی بنائی، 1997 میں وہ خود اپنی پارٹی کے واحد ممبر اسمبلی بنے۔ 2002 کے الیکشن میں بھی ان کی پارٹی محظ ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ مشرف دور میں عمران خان نے مشرف کے خلاف جدوجہد شروع کردی اور کچھ دن جیل میں گئے، جیل میں انہوں نے رہائی حاصل کرنے کے لیے بھوک ہڑتال شروع کردی۔
ڈیرہ غازیخان کی جیل میں عمران خان نے 18 نومبر 2007 کو بھوک ہڑتال شروع کی اور 22 نومبر 2007 کو عمران خان کو اچانک رہا کر دیا گیا۔ عمران خان تقریبا ایک ہفتہ جیل میں رہے۔ 2008 کے الیکشن کا انہوں نے بائیکاٹ کیا۔
مشرف کی رخصتی کے بعد عمران خان کو کی پارٹی کی طرف لوگ مائل ہونا شروع ہوگئے اور 2011 میں عمران خان کو مقدر حلقوں کی حمایت حاصل ہونا بھی شروع گئی۔
2011 میں عمران خان نے لاہور اور کراچی میں تاریخ ساز جلسے کیے جس جلسے کے انتظامات میں عمران خان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ خان نیازی پیش پیش تھے۔ حفیظ اللہ نیازی تحریک انصاف کے بانیوں میں شامل تھے۔
اس کے بعد ہر آنے والے دن نے عمران خان کو مقتدر حلقوں کے قریب کردیا اور عمران خان کے پرانے اور مخلص دوستوں کی جگہ نئے آنے والے لوگوں نے لینی شروع کردی۔ عمران خان کے سیاسی مربی اور سگے کزن حفیظ اللہ نیازی، جسٹس وجیہ الدین اور اکبر ایس بابر سمیت کئی لوگوں کو عمران خان کا بدلتا طرز عمل پسند نا آیا اور چھوڑتے چلے گئے۔
مسلم لیگ ن چھوڑ کر آنے والے جاوید ہاشمی نے بھی کچھ ہی عرصے بعد عمران خان سے منہ موڑ لیا اور چھوڑنے کی وجہ یہ بتائی کہ عمران خان غیر جمہوری قوتوں سے مدد لے کر جمہوری عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔ 17 سالوں میں ایک سیٹ پر چلتی آنے والی تحریک انصاف مگر 2013 کے الیکشن میں وفاق کی 33 پنجاب کی 30 سندھ کی 4 اور کے پی کی 60 سیٹیں لے اڑی۔
مجموعی طور پر تحریک انصاف نے تقریبا 70 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ عمران خان پنجاب اور وفاق میں اپوزیشن اور کے پی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
2018 میں انتہائی فرسودہ، آزمودہ اور بیہودہ طریقے سے عمران خان کو 2 صوبوں کے ساتھ ساتھ وفاق کی حکومت بھی مل گئی اور عمران خان کو تقریبا پونے دو کروڑ ووٹ پڑے۔ عمران خان نے 5 پارٹیوں کا سہارا لے کر حکومت بنائی۔ 2022 میں ان 5 پارٹیوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑا اور دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت کو آئین میں درج طریقہ کار سے تبدیل کیا گیا۔ عمران خان نے مگر اس کو دل پر لے لیا اور کبھی امریکی سازش، کبھی اندرونی سازش تو کبھی میر جعفر و میر صادق والی غداری قرار دینا شروع کردیا۔
اس کے بعد ہر گزرتے دن نے عمران خان کو بند گلی کی طرف دھکیلا۔ ساری پارٹی میں سرے سے جمہوریت نہیں آنے دی، شخصیت پرستی کو خوب دوام بخشا۔ ساری پارٹی نے اسمبلیوں سے نکلنے اور صوبوں کی حکومتیں چھوڑنے سے منع کیا لیکن خان صاحب نے انہیں یہی احساس کروایا کہ تم لوگ ہوتے کون ہو میرے فیصلوں سے اختلاف کرنے والے۔ "میں کلا ای کافی آں" کا تاثر قائم کیا۔
کارکنان نے عمران خان کو سرخ لکیر قرار دے دیا اور اس کو عبور کرنے پر مرنے مارنے کا ایک تاثر قائم ہوگیا۔ 9 مئی کو پی ٹی آئی سے سیاسی خودکشی ہوگئی۔
عمران خان کو رہائی کے بعد معاملات سنبھالنے تھے لیکن ان کی ضد میں مزید اضافہ ہوگیا اور وہ اسی امریکہ کو بار بار مدد کے لیے پکار رہے ہیں کل تک جس کی پاکستان میں مداخلت کو پاکستان دشمنی قرار دیتے تھے اور پاکستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیتے تھے لیکن آج اسی امریکہ کو پاکستان کے خالص اندرونی معاملات پر بار بار پکار رہے ہیں اور وہ بھی دل و جان سے ان کے لیے حاضر ہے۔
سوال مگر اب یہ ہے کہ جب عمران خان کو پارٹی کے اکثر لوگ چھوڑ گئے ہیں تو کیا اس سے پی ٹی آئی ختم ہوجائے گی؟
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے پی ٹی آئی کا وجود ختم ہوجائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ پی ٹی آئی کو اس الیکشن کی دوڑ سے کسی حد تک باہر تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی جڑیں بہرکیف عوام میں موجود ہیں جو پارلیمانی پارٹی کے ٹوٹنے سے قطعی طور پر نہیں ٹوٹ سکیں گی۔
عمران خان نے اپنی پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو یونین کونسل حتیٰ وارڈز تک کی سطح تک قائم کیا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی ونگز کی تنظیم سازی انتہائی گراس روٹ لیول تک مکمل بھی ہے اور مظبوط بھی ہے۔ ضلع اور تحصیل سطح کے تنظیمی عہدیداروں کو عمران خان اپنے ممبران اسمبلی سے زیادہ خوش دلی سے وقت دیتا رہا اور اسی وجہ سے اس کا کارکن اپنی پارٹی میں عمران خان کے علاوہ کسی دوسرے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔
یہ سیاسی، نظریاتی یا جماعتی بنیاد پر پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دیتا یہ صرف عمران خان کی ذات کا گرویدہ ہے۔