Shuhda e Watan, Asasa e Qaum
شہداء وطن، اثاثہ قوم
کنونشن سینٹر اسلام آباد میں وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی جانب سے "عظمت شہداء کنونشن" منعقد کیا گیا۔ کنونشن میں وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزراء، سول سوسائٹی کے لوگ، اعلیٰ سرکاری افسران، سیاسی جماعتوں کے نمائندے، طلباء و طالبات، اساتذہ، علماء اکرام اور صحافی برادری کے نامور لوگ شریک ہوئے۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال اس تقریب کے میزبان تھے جبکہ فوج، پولیس، سیاسی رہنماؤں سمیت سول و عسکری سطح پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اس وطن کی آبیاری کرنے والے عظیم شہداء کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بیٹے، باپ، بھائی اور ورثاء اس تقریب میں"مہمان خصوصی" تھے۔
شہداء اس قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ انہوں نے اپنے آج کو ہمارے کل پر قربان کر دیا۔ اپنے پھول جیسے بچے یتیم کر دیے۔ ماؤں کا سکون اور چین ختم کر دیا۔ بیویوں کو بیوہ کر گئے۔ بھائیوں کو زندگی بھر کا دکھ دے گئے۔ والد کے کلیجے میں آگ لگا گئے لیکن اس وطن کی حرمت و تقدس پر آنچ نہ آنے دی اور اس کے پرچم کو سرنگوں نہ ہونے دیا۔ گھر والوں کی آنکھوں میں خواب سجائے گھر سے نکلے لیکن اپنے وطن کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹے واپس پلٹے۔
شہداء کو اللہ تعالیٰ نے بڑا مقام و مرتبہ دیا ہے۔ اللہ کی راہ میں جان لٹانے والوں کو اللہ نے ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا اور ہمیں منع کر دیا کہ خبردار انہیں مردہ مت کہنا انکی زندگی تمہارے شعور و سوچ سے بہت ماوراء ہے۔ شہادت کی موت اتنی عظیم موت ہے کہ اس دلیری پر خود موت بھی رشک کرتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تمام شہداء کی نشستوں پر جا کر ان سے باری باری ملاقات کی اور ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔
کنونشن میں شہداء کی ماؤں کے تاثرات پر مبنی جب ایک ڈاکومنٹری چلائی گئی تو ہال میں موجود شہداء کی مائیں زار و قطار رونے لگ گئیں، سسکیاں بندھ گئیں، اپنے پیاروں کی یاد میں چیخیں نکل گئیں اور اس منظر نے ہزاروں کے مجمعے کو ساکت کر دیا، لوگ زار و قطار آنسو بہانے پر مجبور ہو گئے۔ چھوٹے بچے بھی شرارتوں کو بھلا کر اس منظر کی دلخراشی سے آنکھوں میں آنسو لیے روتے دکھائی دیے۔
میں پوری زندگی میں اس طرح سے زار و قطار شاید ہی کبھی رویا تھا لیکن میرا ضبط جواب دے گیا اور میں تخیلات کی دنیا میں کھویا یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ ان ماؤں نے اپنے حقیقی جگر تو ہمیں دے دیے ہوئے ہیں ان کی تکلیف اور کرب کا اندازہ کرنا ہمارے لیے محض قیاس آرائی ہو سکتا تھا لیکن حقیقت میں ان کا درد اور دکھ ہمارے تصور سے باہر تھا۔
دو شہیدوں کی وارث ثمر ہارون بلور نے دوران تقریر کہا کہ انکے سسر بشیر بلور کو شہید کیا گیا اور اس کے بعد ان کے شوہر ایک دن گھر سے گئے تو ان سے وعدہ کرکے گئے کہ آج جلدی واپس آ جاؤں گا لیکن وہ وہیں سے اپنے سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ بیوی گھر میں کھانے بنائے ان کا انتظار کرتی رہ گئی اور یہ انتظار ہمیشہ ہمیشہ کے انتظار میں تبدیل ہوگیا۔ اے این پی کے رہنماء میاں افتخار کو اپنے اکلوتے بیٹے کی لاش اٹھانی پڑی۔
ثمر ہارون نے کہا کہ اے این پی نے ایک ایک دن میں چالیس چالیس لاشیں اٹھائیں لیکن کبھی ایک گملا بھی نہیں ٹوٹنے دیا کیونکہ یہ ریاست ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ثمر ہارون بلور نے نمناک آنکھوں کے ساتھ پورے پاکستان سے ایک اپیل بھی کی۔ اس نے کہا کہ اپنے پیارے تو ہم دے چکے ہیں اور اب ہماری عیدیں عام لوگوں کی طرح اپنے اپنے گھروں میں خوشیاں مناتے ہوئے نہیں بلکہ اپنے پیاروں کے ساتھ قبرستانوں میں یا ان کی یادگاروں پر گزرتی ہیں اور ہمیں اس سے سکون ملتا ہے لہٰذا شہداء کی یادگاروں پر حملے کرکے خدارا ہم سے ہمارا سکون نہ چھینو۔
ہمارے شہداء کی یادگاروں کی بےحرمتی نہ کرو یہ ہمارے لیے کسی صورت میں بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ شہیدوں کی وارث جماعت پی پی کی رہنماء شیریں رحمان نے بھی اپنے جماعت کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کا تذکرہ کیا اور ساتھ بتایا کہ پورے پورے خاندان دے کر بھی ہم اس ملک کی سالمیت کو سب سے عزیز رکھتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اس تقریب میں غمزدہ تھے اور آنکھوں میں آنسو لیے وہ کئی گھنٹے اس تقریب میں موجود رہے۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر میں موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی بہن کا تعارف بھی کروایا کہ جس کا اپنا خاوند بھی راہ حق میں جان لٹا چکا ہے۔ وزیراعظم نے عزم کیا کہ بے گناہوں کو چھیڑیں گے نہیں اور گنہگاروں کو کسی صورت میں چھوڑیں گے نہیں۔ مفتی سرفراز نعیمی شہید کے بیٹے مفتی راغب نعیمی صاحب نے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں کو "کفران نعمت" میں شمار کیا اور کہا کہ ان کو ریاست پاکستان نے سزا نہ بھی دی تو اللہ تعالیٰ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا اللہ انہیں ضرور سزا دے گا۔
9 مئی کا سانحہ یقیناََ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ اس کو احتجاج، ردعمل، سیاست یا جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ یہ واضح طور پر انتشار، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سانحہ تھا۔ اس ملک میں موجود سیاسی جماعتوں کے لوگوں نے ہزاروں جانیں دیں، گرفتاریاں دیں، سالوں کی جیلیں بھگتیں لیکن 9 مئی کو ایک گرفتاری نے ایسی کون سی قیامت ڈھا دی تھی کہ پورے ملک میں حساس ترین دفاعی تنصیبات اور شہداء کی یادگار پر حملہ کر دیا گیا؟
عمران خان صاحب کے دور حکومت میں اسی نیب کے ہاتھوں سینکڑوں سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں ہوئیں اور وہ سالوں جیلوں میں رہے لیکن کہیں ایک پتا بھی نہیں ٹوٹا بلکہ ملکی عدالتوں میں لوگوں نے ان مقدمات کا سامنا کیا اور الزامات کا جواب دیا لیکن کیا نونہالان انقلاب عمران خان صاحب کو ملک، ریاست، اداروں اور حتٰی کہ دنیا میں موجود تمام انسانوں سے کوئی الگ مخلوق سمجھتے ہیں کہ جن سے کوئی ادارہ الزامات پر جواب طلب نہیں کر سکتا اور جن کو کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا؟