Sawa 6 Darjan Afrad Ki Kabeena
سوا چھ درجن افراد کی کابینہ
مملکت خداداد، وطن عزیز، ملک پاکستان کی تباہ حال معیشت کا نوحہ تو ہم ہر روز سنتے ہیں۔ یہ ایک بھیانک حقیقت بھی ہے کہ اس وقت مہنگائی، بیروزگاری اور غربت نے نہ صرف غریبوں کی بلکہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ کاروبار منجمد ہو چکے ہیں۔ تاجر برادری چلا اٹھی ہے۔ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ خام مال کراچی کے ساحل پر پڑا ہے جس کو کلئیر کروانے کے لیے تاجروں کو ڈالر نہیں مل رہے۔ انڈس موٹرز کمپنی نے ڈالر کی کمی کی وجہ سے خام مال کی عدم فراہمی پر پاکستان میں پیداوار بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری تیزی سے بند ہو رہی ہے۔ پولٹری فارم انڈسٹری سکڑ گئی ہے۔ ملز مالکان مزدوروں کی چھٹی کروا رہے ہیں۔
پاکستان ایشیاء کے دوسرے مہنگے ترین ملک کے طور پر سامنے آ گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائز خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ لیکن، وفاقی حکومت کا راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے اور وفاقی کابینہ میں روز کسی نہ کسی اضافے کی نوید سنا دیتا ہے۔ اس وقت لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ بھوک ہے جو مزید کئی مسائل کو پیدا کر رہا ہے۔ بقول سعادت حسن منٹو
"دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے۔ بھوک گداگری سکھاتی ہے۔ بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے۔ بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے۔ اس کا حملہ بہت شدید، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔ بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے، دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی۔ "
لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہے ہیں۔ جب وہ بھی ختم ہو جاتی ہیں تو پھر قرض اٹھا کر گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جب قرض بھی نہیں مل پاتا تو خودکشیاں کر کے اس دارالمتحان سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور کے علاقے کاہنہ سے تعلق رکھنے والے رکشہ ڈرائیور فیاض نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر خودکشی کر لی اس کے پاس سے جو خط برآمد ہوا وہ رلا دینے والا ہے۔
فیاض لکھتا ہے کہ
"معافی نامہ
السلام و علیکم!
میرا نام فیاض احمد ہے۔ میں نے لوگوں کے پیسے دینے ہیں جو مجھ سے نہیں ہو پا رہے۔ اس وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ اویس بھائی، عمر بھائی، شہباز بھائی، فیصل بھائی، نوید بھائی، وحید بھائی اللہ کی رضا کے لیے مجھے معاف کرنا۔ میری بیوی کو تنگ نہ کرنا۔ انہیں جینے دینا۔ پریشان نہ کرنا تاکہ وہ یہ قدم نہ اٹھائیں۔ عروسہ میری بیوی مجھے معاف کرنا۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا۔ حرم اور بچوں کا خیال رکھنا اور اللہ کے واسطے مجھے معاف کر دینا۔ اللہ کے واسطے۔ آپ سب دوستوں سے بھی معافی چاہتا ہوں۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔
آپ کا دوست فیاض احمد۔ "
فیاض احمد نے مرنے میں جلدی کر دی۔ صرف ایک دن رک جاتا۔ اس کے مرنے کے ایک دن بعد اسکے حلقے کے ایم این اے کو وفاقی وزیر کے برابر اختیارات اور مراعات مل گئی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ایم این اے رانا مبشر صاحب کو وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے اپنی کابینہ میں شامل فرما لیا ہے۔ وفاقی کابینہ کی تعداد 76 ہوگئی ہے جس میں 31 معاونین خصوصی، 34 وفاقی وزیر، 7 وزیر مملکت اور 4 مشیر شامل ہیں۔ اب کچھ ہی درجن ایم این اے رہ گئے ہیں کہ جن کا تعلق کاروان اقتدار سے ہے اور وہ ابھی تک ان مراعات و اختیارات سے محروم ہیں۔ ملکی مسائل حل ہی تب ہونے ہیں جب کاروان اقتدار سے جڑے ہر سپاہی کو وزارت دستیاب ہوگی۔
ایک وہ وقت تھا کہ جب وفاقی کابینہ کی تعداد 50 کو پہنچ گئی تھی۔ تب عمران خان صاحب وزیراعظم تھے۔ موجودہ سوا چھ درجن وزراء میں سے کئی درجن لوگ سارا سارا دن اس وقت کی حکومت کی کمر پر تنقید کی چابک برسایا کرتے تھے۔ وہ 50 رکنی کابینہ کو ملکی سرمائے کو دریا برد کرنے کے مترادف سمجھتے تھے۔ اس کو عمران خان کا یاروں کو نوازنے کا بہانہ قرار دیتے تھے۔ آج وہی فوج ظفر موج اقتدار کے نشے میں مست ہو کر اپنی کابینہ کو 76 اراکین تک لے جا چکی ہے لیکن اب یہ نہ تو یاروں کو نوازنے کا بہانہ سمجھتے ہیں اور نہ ملکی سرمائے کا ضیاع۔ یہ اب اس کو ملک کی خدمت کا موقع قرار دیتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب موجودہ وزراء کے درجنوں چہرے دن رات مہنگائی پر تشویش کا اظہار کرتے تھے اور اس وقت کی حکومت کو گرانے کا واحد جواز پاکستان کی غریب عوام کا مہنگائی کی چکی میں پسنا قرار دیتے تھے۔ مگر خود اقتدار میں آ کر جب غریب کی ننگی کمر پر مہنگائی کے تازیانے برسانے کی رفتار ان سے بھی کئی گنا بڑھا دی ہے تو اس کو ملک بچانے کا واحد حل قرار دیتے ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ دن رات آٹا چور، چینی چور، قبضہ مافیا اور ادویات مافیا کی گردان سننے کو ملتی تھی جس میں آٹا اور چینی مہنگی کر کے 500 ارب روپے کا فائدہ اٹھانے والوں میں جہانگیر خان ترین کا نام بتایا جاتا تھا۔ پراپرٹی کے نام پر اربوں کا فائدہ اٹھانے والوں میں علیم خان کا نام بتایا جاتا تھا، ادویات کے نام پر پیسہ بنانے والوں میں عون چوہدری کے خلاف پریس کانفرنسز سننے کو ملتی تھیں۔
حالات نے کروٹ لی۔ جہانگیر خان ترین، علیم خان اور عون چوہدری نے اپنا وزن عمران خان کے پلڑے سے اٹھا لیا۔ پی ڈی ایم کو اس کا تختہ الٹنے پر مدد فراہم کی تو کل تک جو لوگ انہیں ملکی خزانے کو لوٹنے والا قرار دیتے تھے وہی ان کے گن گانے لگے اور جو زبانیں ان کی ملک دشمنی اور لوٹ مار بیان کرتی تھیں وہی ان کی شرافت، دیانت اور مظلومیت کے قصے سناتی نظر آئیں۔
ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ "سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ "
مگر اب مجھے لگتا ہے کہ سیاست کے سینے میں ذرا سی شرم و حیا اور غیرت بھی نہیں رہی۔ اب جھوٹ، مکر، فریب، دغا بازی اور منافقت کو سیاسی دانشمندی کا نام دیا جاتا ہے۔ جن نعروں کا سہارا لے کر اقتدار تک پہنچا جاتا ہے اقدامات اس کے بالکل الٹ کیے جاتے ہیں۔ جیسے عمران خان نے ایک کروڑ نوکری کے بدلے کئی کروڑ بیروزگار کیے۔ پچاس لاکھ گھر کے بدلے کئی لاکھ بے گھر کیے۔ خوشحالی کے بدلے بدحالی دی۔ نظام کی بہتری کے بدلے نظام کو بدتر کیا۔ فلاح کے بدلے مہنگائی کا تحفہ دیا۔
بالکل ویسے ہی موجودہ حکومت نے بھی عوام کو ریلیف کے بدلے عوام کا گلا گھونٹا۔ مہنگائی کم کرنے کی بجائے کئی گنا زیادہ کر دی۔ جمہوریت کی بحالی کی بجائے آمرانہ رویے کو فروغ دیا۔ کفایت شعاری کو فروغ دینے کی بجائے نوازشات کی بارش کی۔ ڈالر کنٹرول کرنے کی بجائے اس کو اڑان دی۔ پٹرولیم مصنوعات کو آدھی قیمت پر لانے کی بجائے دوگنی پر لے گئے۔ الیکشن اصلاحات کی بجائے وقت گزاری کو ترجیح دی۔
بقول علامہ محمد اقبال۔
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا چراغوں سے ہے روشن۔