Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Moavia
  4. Imran Khan Sabse Taqatwar Hain

Imran Khan Sabse Taqatwar Hain

عمران خان سب سے طاقتور ہیں

14 اگست 2014 کو عمران خان نے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا اور اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر 126 دن کا ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا۔ مطالبہ ایک ہی تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں اور قبل از وقت نئے الیکشن کا اعلان کریں۔ جب دھرنا شروع ہوا تو اس معاملے پر مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا جس میں عمران خان کو پارلیمنٹ واپس پلٹنے اور معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی باربار دعوت دی گئی لیکن عمران خان نے اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کا اعلان کر دیا۔

پارلیمنٹ کے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے نواز شریف کو ڈٹ جانے اور کسی صورت میں بھی استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دیا۔ جتھوں کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کرکے مطالبات منوانے کو غیر جمہوری اور ناقابل برداشت حرکت قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اگر آج ان کے مطالبات مان لیے گئے تو کل کو فرقہ پرست جماعتیں بھی اپنے اپنے جتھے لے کر آئیں گی اور کہیں گی کہ دوسروں کو کافر قرار دے دیں تو تب ریاست کیا کرے گی۔

آج اعتزاز احسن صاحب چونکہ عمران خان کے لیے پہلے جیسا مؤقف نہیں رکھتے نہ جانے انہیں اپنی ہی کہی ہوئی یہ باتیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں لیکن یہ قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ وہی ہوا اور اس دھرنے کے بعد اس ملک میں دھرنوں نے رواج پکڑ لیا۔ تب سے لے کر آج تک کئی دھرنے دیے جا چکے ہیں۔ اب تو کسی بھی جماعت کی بات نہ مانی جا رہی ہو تو اس کی سب سے پہلی دھمکی دھرنے کی ہوتی ہے قطع نظر اس بات سے کہ وہ بات آئینی یا قانونی ہے بھی کہ نہیں۔

سب جماعتوں کے سربراہ اپنے ماننے والوں کے مرشد ہیں اور مرشد کی طبع نازاں پر جو گراں گزرے گا اس پر ایک عدد دھرنا تو اب سب کا حق ہے۔ عمران خان کی گرفتاری قانونی تھی یا غیر قانونی؟ گرفتاری کا طریقہ درست تھا یا غلط؟ نیب گرفتار کر سکتی تھی یا نہیں؟ کیس سچا ہے یا جھوٹا؟ ان سوالوں کے جواب دینے کے لیے آئین قانون یا ملکی نظام کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی طرف دیکھیں واضح صف بندی ہے۔ بھرپور چیخ و للکار بلکہ یلغار جاری ہے۔

عمران خان کے حامیوں کے نزدیک عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی، غیر آئینی اور حرام مطلق ہے۔ وہ جو مرضی کر لیں ان کا یہ استحقاق ہے۔ ان کا بس چلے تو گناہ لکھنے والے فرشتے کو بھی عمران خان ہی ہر غلطی کو نیکی لکھنے پر مجبور کر دیں کیونکہ عمران خان جیسا مقبول لیڈر گناہ بھی کر لے تو اس کو گناہ لکھنے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ ان کو گرفتار کرنا تو جرم عظیم ہے۔ وہ ان کے دلوں پر راج کرتا ہے اور ان کے لیے جان دینا آسان ہے اور خان دینا مشکل۔

یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ماپتا پھرے کہ خان نے جو کیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط بلکہ صحیح و غلط کا معیار ہی عمران خان کے دو بول ہیں وہ سورج کو چاند اور چاند کو سورج قرار دے دیں تو انکی یہ حق گوئی دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سچائی قرار پائے گی کیونکہ آج تک انسانی تاریخ میں آنے والے کسی فرد کو اتنی جرات ہی نہ ہو سکی کہ وہ اس راز سے پردہ اٹھا سکے کیونکہ اس سے پہلے نہ کوئی عمران خان آیا اور نہ کسی نے ہمیں بتایا کہ سورج درحقیقت چاند اور چاند درحقیقت سورج ہے۔

دوسری طرف عمران خان کے مخالفین کی صف ہے کہ جس کے نزدیک غلطیوں، گناہوں اور جرائم کا دوسرا نام ہی عمران خان ہے اور ملک عزیز پاکستان کے ہر مسئلے کی ابتداء و انتہا عمران خان ہے۔ اس کو گرفتار کرنا دنیا کا سب سے ضروری اور اہم کام ہے۔ اب سیاست کسی اصول، ضابطے، نظریے یا اصول کے گرد نہیں بلکہ اپنی اپنی پسند کے گرد گھومتی ہے۔

گزشتہ دنوں جب عمران خان کی گرفتاری اسی ادارے کے ہاتھوں ہوئی کہ جس ادارے سے عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار میں چنوایا کرتے تھے تو عمران خان کے چاہنے والوں نے پورے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں نکل کر احتجاج کا آغاز کر دیا۔ پہلے یہ احتجاج تو عوامی مقامات پر شروع کیا گیا لیکن بعد میں اس احتجاج کا رخ ملک کے ایک اہم ترین ادارے کے دفاتر اور اس کے افسران کے گھروں کی طرف موڑ دیا گیا۔ توڑ، پھوڑ، جلاؤ، گھیراؤ، پتھراؤ، لوٹ مار اور انارکی کے جو واقعات ان دو دنوں میں پیش آئے اس سے پہلے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا اور اس میں آگ لگائی گئی، لاہور کور کمانڈر کے گھر اور اس کے دفاتر سے سارا سامان لوٹ لیا گیا اور بعد میں اس کو اس طریقے سے جلایا گیا کہ اس کی چھتیں گر گئیں اور دیواریں پھٹ گئیں۔ جنگ میں شاندار کارکردگی دکھانے والے پاکستانی تاریخی طیارے کو بے رحمی سے توڑا گیا۔ قائداعظم کے زیر استعمال چیزوں تک کو نہ بخشا گیا اور جلا دیا گیا۔ میٹرو بسیں، کنٹینر، عمارات، گاڑیاں اور جو جس کے آگے آیا اس کو پہلے تسلی سے لوٹا اور پھر اس کو جلا کر راکھ کر دیا۔

دو دنوں میں اربوں روپے کا قومی نقصان کیا گیا۔ مطالبہ صرف یہی تھا کہ عمران خان کو رہا کیا جائے۔ عمران خان کا فوری رہا ہونا اس ملک کی سلامتی سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ دو دن بعد عمران خان صاحب رہا ہوئے تو اس کو عوامی ردعمل قرار دیا اور یہ دھمکی بھی لگا دی کہ اگر کوئی دوبارہ گرفتار کرے گا تو ایسا ہی ردعمل آئے گا۔ نہ جانے یہ کیسا عوامی ردعمل تھا کہ جس میں ایک سیاسی جماعت کے جھنڈے تھامے اسی جماعت کے عہدے دار و کارکنان پیش پیش تھے۔

اگر یہ عوامی ردعمل تھا تو ہر شہر میں ایک مخصوص ادارے کی طرف ہی چڑھائی کیوں کی گئی؟

اگر یہ عوامی ردعمل تھا تو آپکی جماعت کے مرکزی رہنماؤں کے حکم دینے اور اس طرف کے لے کر جانے سے پہلے تک ایسا کوئی واقعہ پیش کیوں نہیں آیا؟

اگر یہ عوامی ردعمل تھا تو لاہور میں آپکے تمام لوگ لبرٹی چوک میں جمع تھے اور تب تک نہ کوئی گملا ٹوٹا تھا اور نہ کوئی کینٹ کی طرف گیا تھا کہ جب تک آپکی جماعت کی مرکزی قیادت وہاں نہیں آگئی اور انہیں کور کمانڈر کے گھر کی طرف جانے کا حکم نہیں دے دیا؟

کیا یہ احتجاج تھا؟ کیا یہ عوامی ردعمل تھا؟ کیا اس ملک میں آئین، قانون یا کسی ادارے کی بجائے اب عمران خان سب سے طاقتور ہیں؟

کیا عمران خان پاکستان کی سالمیت و بقاء سے بھی زیادہ ضروری ہیں؟

عمران خان خان صاحب کے چاہنے والوں کے نزدیک عمران خان صاحب حرف آخر ہیں اور ان کے بعد بس قیامت ہے۔ اپنی ہی عوام کو اپنے اداروں کے سامنے کھڑا کر دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ 2018 جیسی لاڈیاں لڈانے کو اب کوئی تیار کیوں نہیں ہو رہا۔ خان صاحب قبل از وقت الیکشن مانگ رہے ہیں تو ادارے اپنی آئینی حد سے نکل کر خان صاحب کا ساتھ کیوں نہیں دے رہے؟ جب عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا تو انہیں پہلے تین سالوں کہ طرح تب بھی بچایا کیوں نہیں گیا حالانکہ اس نے کہہ تو دیا تھا کہ جو آپ کہیں میں کرنے کو تیار ہوں چاہے تو جتنی دیر کی مرضی توسیع لے لیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ غصہ صرف اس بات کا ہے۔

کیا یہاں فیصلے یوں ہی دھونس، دباؤ اور زور زبردستی سے ہی ہوتے رہیں گے یا اب ہمیں آئین و قانون کا ترازو ہر ایک کے لیے اور ہر حال میں یکساں رکھنا چاہیے؟

سوال سب کا یہی ہے لیکن جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں۔

نہ جانے کیوں؟

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi