Ustad e Mohtaram
استادِ محترم
پاکستان میں یونیورسٹی کی سطح پر فنون لطیفہ کی تعلیم کی شروعات کا سہرا ایک یورپی خاتون آرٹسٹ اینا مولکا احمد کے سر ہے۔ جنہوں نے 1940 میں پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فائن آ رٹ شروع کیا۔ جس نے اس میدان میں بین الاقوامی سطح کے استاد اور فنکار پیدا کئے۔ آ ج یہ ڈیپارٹمنٹ ایک کالج کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ جہاں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں پی ایچ ڈی تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اس ادارے سے منسلک بے شمار مایہ ناز اساتذہ میں ایک نام پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود صاحب کا ہے۔ جن کے اعزاز میں 7 جون 2022 کو ایک تقریب منعقد کی گئی، جہاں ان کی ساٹھ سالہ علمی اور تحقیقی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس تقریب میں جہاں فنون لطیفہ کی دنیا کے بڑی شخصیات شامل تھیں، وہیں ڈاکٹر صاحب کی شاگرد ہونے کے ناطے اس ناچیز نے بھی انہیں ایک استاد کی حیثیت سے خراج تحسین پیش کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کی۔
یہ اس لئے بھی اہم جانا کہ فنکار کے فن پر تو بہت بات ہوتی ہے۔ لیکن ایک استاد کے تعلیم دینے کے فن کا ذرا کم کم تذکرہ ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود صاحب کے کئی تعارف ہیں اور وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں کہ، آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ انہیں کون نہیں جانتا؟ صحافتی کارٹون کی دنیا کے میکسم ہوں، پی ٹی وی پر پیش کئے گئے تاریخی ورثے کے دستاویزی پروگراموں کے ڈاکٹر شوکت محمود ہوں یا علمی دنیا کے پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود ہوں، کسی نا کسی حوالے سے انہیں ہر کوئی جانتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک مایہ ناز کارٹونسٹ ہیں، فنون لطیفہ پر اردو اور انگریزی میں لکھی گئی بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، ایک بہترین انسان ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر علم کا ایک ایسا دریا ہیں، جہاں سے بے شمار طلباء فیض یاب ہو چکے ہیں، اور آ ج بھی ہو رہے ہیں۔ میرے لئے ڈاکٹر شوکت صاحب میرے استاد محترم ہیں۔ جنہوں نے علم کی دنیا پر شان و شوکت سے 60 برس راج کیا اور اس طویل سفر کے دوران انگنت علم کے طالبوں کی طلب پوری کی۔
ایک استاد کی حیثیت میں ڈاکٹر صاحب مختلف تعلیمی طریقے استعمال کرتے ہیں، جس کا تذکرہ یہاں ضروری ہے۔ سر کو شائد معلوم نہیں کہ ان سے باقاعدہ ملاقات ہونے سے بہت پہلے سے غائبانہ طور پر ان کی شاگردی میں ہوں، یا موجودہ دور کی زبان میں انہیں فالو کر رہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلا غائبانہ تعارف میری پہلی تصویری نمائش پر ان کا اخبار میں چھپا تبصرہ تھا۔
اس کے بعد 1990 میں میں نے اپنی ایک طالبہ کو ان کے پاس بھیجا جو پاکستان میں صحافیانہ کارٹون پر تحقیق کر رہی تھی۔ اس وقت انہوں نے جیسے اس بچی کو گائیڈ کیا اس سے میں نے بھی بہت کچھ سیکھا اور سیکھنے کا یہ سفر آ ج تک جاری ہے۔ اس وقت یہ معلوم ہوا کہ فنون لطیفہ کے مضمون میں مقالہ کیسے لکھا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس کی تصحیح کیسے کی جاتی ہے؟
جب اپنی پی ایچ ڈی کے دوران باقاعدہ ان کی شاگردی اختیار کی تو معلوم ہوا کہ سر تو استادوں کے استاد ہیں، اور اس استادی سے اپنے چالاک (اور نا پڑھنے والے) سٹوڈنٹس کو پڑھاتے ہیں کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی اور وہ علم کے سمندر میں غوطے کھانے لگتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کے دوران معلوم ہوا کہ بذلہ سنجی، عاجزی، انکساری، شفقت اور دلچسپ گفتگو ان کی شخصیت کے وہ پہلو ہیں، جو فاصلاتی لرننگ کے دوران آنکھوں سے اوجھل تھے۔
سر کے طریقہ تدریس میں سوالات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور ان کی کلاس میں استاد اور شاگرد، دونوں کو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سوالات پوچھنے کی پوری آ زادی ہوتی ہے، اور یہیں سے علم کی ابتدا ہوتی ہے۔ آپ انہیں انتہائی عرق ریزی سے لکھا گیا اپنے مقالے کا مسودہ دیں، سر اس پر ایسے سوالات اٹھائیں گے کہ آ پ خود ہی وہ مسودہ ردی کی ٹوکری میں ڈالیں گے اور ان سوالات کے جوابات کے ساتھ ایک بہتر مسودہ لکھیں گے۔
دراصل یہی سیکھنے کے عمل کی ابتدا ہے۔ بہت سے طلباء یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے والا استاد اسے ناجائز تنگ کر رہا ہے۔ لیکن ایسے میں انہیں شیخ سعدی کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ "جس نے استاد کی سختی نا جھیلی اس کے لئے دنیا کی سختیاں ہیں"۔ ویسے سر کا انداز ایسا ہوتا ہے، وہ سختی کو بھی نرمی میں بدل دیتے ہیں اور خود ان کے بقول وہ اپنے طلباء کے لئے دن کے چوبیس گھنٹے، ہفتے میں سات دن موجود ہوتے ہیں۔
مسودوں کی اصلاح کے لئے خفیہ زبان ہو، شاگرد کا ہاتھ پکڑ کر تحقیق کے پر خار اور پر خطر راستے پر چلنا ہو، ہمت ٹوٹنے پر حوصلہ بڑھانا ہو، یونیورسٹی کے بوجھل ماحول میں دلچسپی پیدا کرنی ہو، تفریح کے بہانے معلوماتی سفر پر جانا ہو اور اپنے شاگردوں میں اعتماد پیدا کرنا ہو۔ یہ سب استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود صاحب سے ہی سیکھا اور آگے اپنے طلباء تک پہنچانے کی کوشش کی۔ حقیقت میں دیار وطن کو ایسے بے لوث اساتذہ کی شدید ضرورت ہے۔
سر آ پ کا بے حد شکریہ
آ خر میں، یہی کہ
یہ جو ہماری درس گاہوں میں استاد ہوتے ہیں
حقیقت میں یہی قوم کی بنیاد ہوتے ہیں