Tabdeeli Aab O Ghiza
تبدیلی آب و غذا
بچپن سے سنتے آئے اور اپنی فلموں میں بھی دیکھتے آئے کہ مغموم یا دل برداشتہ ہیرو اور ہیروئن کو ایک ڈاکٹر صاحب تبدیلی آب و ہوا کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس صائب مشورے کے بعد گھر والے ملازمین کے لاؤ لشکر کے ساتھ مری روانہ ہو جاتے ہیں اور وہاں غیر معینہ مدت کے لئے قیام و طعام فرماتے ہیں۔ یہ مناظر پرانی فلموں میں کثرت سے دکھائے جاتے ہیں اور فلم بین بھی اس تبدیلی آ ب و ہوا کے لئے مچل جاتے ہیں۔ یہی منظر کشی اس وقت کے رومانوی ناولوں میں بھی پیش کی جاتی ہے۔
یہی دیکھتے اور پڑھتے ہوئے کئی نسلیں جوان ہوئیں۔ آج یہ جو مری میں بے ہنگم ہجوم نظر آتا ہے وہ دراصل اس وقت کے بچے ہیں جو اب اپنی دبی ہوئی خواہشات پوری کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں ورنہ مہنگائی کی وجہ سے اب فلموں میں ایسے مشورے دینے والے ڈاکٹر اپنی تبدیلی آ ب و ہوا کے لئے بیرون ملک کوچ کر چکے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے لوگ ایسے مقامات کا رخ تو کرتے ہیں لیکن وہاں قیام کا دورانیہ بہت کم ہو چکا ہے اور لوگ عموماََ دو تین روز میں واپس آ جاتے ہیں۔
ویسے بھی انسانی ہجوم کی وجہ سے مری میں اب نا آب رہا ہے اور نا ہوا اور اب یہ پر فضا مقام بھی نہیں رہا۔ یہ سب باتیں ایک طرف، سڑک پر چلنے والے خواتین اور حضرات کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ایک بڑی تعداد لوگوں کی موٹاپے کا شکار ہے۔ تفریحی مقامات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہر دوسرا پاکستانی تبدیلی آ ب و ہوا کے نظرئیے سے اچھی طرح واقف ہے حالانکہ انہیں تبدیلی آ ب و ہوا سے زیادہ تبدیلی آب و غذا کی شدید ضرورت ہے۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور ساتھ کے ساتھ موٹاپے اور بیماریوں کی شرح بھی۔ اس امر کی بنیادی وجہ ہمارے کھانے کا شوق اور کھانے پینے کے اوقات ہیں۔ ہمارے میڈیا پر چلنے والے اشتہاروں سے کی گئی ریسرچ کے مطابق کپڑوں کی دھلائی، غسل خانوں کی صفائی اور کھانا پکانے کا گھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
کھانے پکانے کے پروگرام دیکھیں تو ایک سے بڑھ کر مہنگی اور مشکل ترکیبیں سکھائی جا رہی ہیں جن کے اجزاء اکثر درآمد شدہ ہوتے ہیں اور خانسامے اور خانسامیاں لہک لہک کر یہ کھانے پکانے کی ترغیبات دے رہے ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں کی پیشکش ایسی عمدہ ہوتی ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی ٹی وی کے آگے بیٹھنا پڑتا ہے اور چونکہ وقت اسی میں ضائع ہو جاتا ہے تو اپنے گھر والوں کے لئے فوڈ پانڈے کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
پاکستانیوں کی کھانوں سے محبت کا اندازہ لگانا ہو تو سڑکوں پر کئے جانے والے احتجاج سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام سب سے زیادہ پریشان آٹے، چینی اور گھی کی مہنگائی سے ہوتی ہے۔ باقی اشیاء کی مہنگائی سے ہمیں کچھ خاص غرض نہیں۔ یہی وہ چنیدہ اشیاء ہیں جن کی مہنگائی کی وجہ سے ہماری اپوزیشن زندہ رہتی ہے اور دل کھول کر سیاست کرتی ہے۔
آج ارض وطن میں کھانے پینے کے انداز کا جائزہ لیا جاۓ تو عوامی کھابوں کی دکانوں پر چینی اور گھی کا استعمال ضرورت سے زیادہ نظر آ تا ہے۔ امراء البتہ ان اشیاء کا استعمال تب تک کرتے ہیں جب تک شوگر، بلڈ پریشر اور موٹاپے کی وجہ سے ڈاکٹر انہیں تبدیلی آب و غذا کا مشورہ نہیں دے دیتے۔ باقی عوام البتہ اپنے مشغلے میں مصروف رہتی ہے کیونکہ نا وہ ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے اور نا یہ مشورہ لیتی ہے۔
انسانی تہذیب کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اور شعبوں کے ساتھ ساتھ کھانا بنانے کا فن بھی ارتقائی منازل سے گزرا۔ چونکہ کھانا پینا انسانی زندگی کی بقا کے لئے ضروری ہے لہٰذا لگ بھگ 20000 سال قبل مسیح سے پکے ہوئے کھانوں اور تین لاکھ ق م سے آ گ کا سراغ ملتا ہے۔ اس سے پہلے انسان شکار کردہ جانوروں کا گوشت کچا ہی کھانے کا عادی تھا۔ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ جنگل میں حادثاتی آگ کی وجہ سے مرنے والے جانوروں کا گوشت کھانا اس کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ باربی کیو سے ہماری رغبت کے ڈانڈے اسی حادثاتی آگ سے ملتے ہیں۔ گوشت کے علاوہ جنگلی پھل بھی اس کی خوراک کا حصہ تھے۔ یہ سلسلہ تب تک چلا جب تک انسان نے کھیتوں میں فصلیں اگانا نہیں سیکھ لیا۔ قدیم مصری، وسط ایشیائی اور خود ہمارے یہاں دریائے سندھ کی تہذیبوں سے پکے ہوئے کھانوں کے شواہد ملے ہیں۔
اس ضمن میں فاسٹ اینڈ فیسٹ نامی کتاب ایک خوشگوار اور علم افزاء انداز میں ہمارے خطے میں کھانوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کتاب کے مطابق سبزیاں اور پھل، اچار اور چٹنیوں کی شکل میں محفوظ کرنے اور اسے اپنے کھانوں میں شامل کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ عوامی کھانوں میں دہی، دودھ اور مقامی سبزیاں اور پھل خاص اہمیت رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ بہت سبق سکھاتی ہے، لیکن پاکستانیوں نے تو تاریخ کو سبق سکھانے کی ٹھان رکھی ہے۔
آج ہمارے روزمرہ کھانوں میں چینی اور گھی کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے صحت اور جیب کے مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہماری سیاست کو بھی یہی کنٹرول کرتی ہے۔ زر مبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔ ہمارا پسندیدہ کام بس یہی ہے کہ ان پلاسٹک کے تھیلوں میں پیک درآمدی چیزوں کو خریدیں اور ان سے امپورٹڈ ترکیبیں بنائیں اور پلاسٹک کے کچرے میں جی بھر کر اضافہ کریں۔
اس سب کی وجہ سے آب و ہوا تو تبدیل ہو کر تنزلی کا شکار ہے ہی عوامی صحت کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں۔ یہاں کے باسیوں کی خرابی صحت کی وجہ سے صرف ڈاکٹر حضرات کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اس گھمبیر صورتحال میں تاریخ سے کچھ سبق حاصل کر لینے میں کوئی حرج نہیں اور اپنے پرکھوں کی غذا رائج کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پاکستان کو اس وقت آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ آب و غذا کی تبدیلی کی شدید ضرورت ہے۔