Retirement
ریٹائرمنٹ
وطن عزیز میں ملازمت، اور خاص طور سے سرکاری ملازمت کرنے والے ایک لفظ سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ ہے "ریٹائرمنٹ"۔ کئی لوگ اپنے ملازمتی دورانیئے میں اس لفظ کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور کچھ کا خیال ہوتا ہے کہ وقت آ نے پر دیکھا جائے گا۔ سرکار نے تمام ملازمین کی سہولت کی خاطر (بظاہر) ریٹائرمنٹ کے لئےعمر کی ایک حد بھی مقرر کر رکھی ہے جو عوامی ملازمین پر تو لاگو ہوتی ہے لیکن کچھ پہنچے ہوئے افسران اس سے مبرا ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ریٹائرمنٹ کی دو اقسام رائج ہیں، خواصی اور عوامی۔ خواصی ریٹائرمنٹ کی قسم میں کرکثرز، ججز اور کچھ "سر" قسم کے افسران شامل ہیں جبکہ عوامی ریٹائرمنٹ میں افسران بالا، افسران زیریں افسر نما اور دیگر ملازمین شامل ہیں۔ خاص ریٹائرمنٹ کا شہرہ پورے ملک میں بھونچال کی صورت ہوتا ہے اور کچھ عرصے کے لئے عوام اپنی روزمرہ کی شکائتیں بھول کر اس سب سے اہم معاملے پر نظریں جما لیتی ہے۔
یوں حکومت کو بھی موقع مل جاتا ہے کہ اہم مسائل کو پس پشت ڈال کر اس ڈرامے میں شامل ہو جائے اور عوام کو بھرپور تفریح کا موقع فراہم کرے اور ایک ہی تیر سے کئی شکار کرے۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جس کا ہر پہلو ہی بھرپور توجہ مانگتا ہے لیکن وہ کہانی پھر سہی۔ یہ تحریر صرف افسر نما یعنی سرکاری اساتذہ کی ریٹائرمنٹ کے احوال پر ہی مبنی ہے جن کا حال منظر عام پر کم ہی آ تا ہے۔ بظاہر انگریزی سے مستعار لیا گیا یہ معصوم لفظ اپنے اندر ایک جہان چھپائے رکھتا ہے۔
یقین کیجئے کہ ملازمت کے پہلے ہی روز اس لفظ سے تعارف ہو جاتا ہے۔ جیسے ایک گنہگار انسان کو اس کی آخرت یاد دلائی جاتی ہے، باعین ہی ایک سرکاری ملازم کو اس کی آخرت یعنی ریٹائرمنٹ جبری یاد کروائی جاتی ہے۔ سر کار نے اس کام کے لئے تعلیمی اداروں، اکاؤنٹ کلرک کے نام سے بہت سے ملک الموت بھرتی کر دیے ہیں۔ ابھی آ پ ملازمت میں پوری طرح داخل بھی نہیں ہوتے کہ طرح طرح کے فارم بھروائے جاتے ہیں۔
جن میں عام معلومات کے آ سان سوال پوچھے جاتے ہیں جیسے آ پ کے انتقال پر ملال کی صورتیں، آ پ کی پینشن کا حقدار کون ہو گا؟ آ پ کسے اپنا جانشین مقرر کرنا چاہیں گے وغیرہ وغیرہ؟ اب ایک نو جوان کو ملازمت ملنے کی سر مستی میں جب ایسے سوال پوچھے جائیں گے تو آخرت کے خوف سے اس کی کیا حالت ہو گی؟ اس کا اندازہ میٹرک کی چھٹیوں میں " موت کا منظر" نامی کتاب پڑھنے والے بخوبی لگا سکتے ہیں۔
سرکار کی پیدا کردہ یہ مخلوق بیچارے اساتذہ کو ذرا سی لغزش کی صورت میں ریٹائرمنٹ کے واجبات میں سنگین کٹوتیوں کے بارے میں وقتاً فوقتاً آگاہ رکھتی ہے اور یوں انہیں صراط ِمستقیم پر چلنے کا پابند بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کا احساس بھی دلاتی رہتی ہے۔ ریٹائرمینٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے جسے اردو میں بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا ماخذ فرانسیسی زبان سے ہے اور انگریزی نے بھی اسے اردو کی طرح ادھار ہی لیا۔
مختلف لغات کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ دراصل اس کے معنی پسپا ہونے کے ہیں یعنی ملازمت کی جنگ و جدل کے بعد کسی خاموش جگہ پر پسپائی اختیار کرنا۔ وطنِ عزیز میں سرکار اپنے بڑے بڑے جغادری اور پھنے خان قسم کے افسران اور ملازمین کو آ خر کار پسپا کر دیتی ہے لیکن ایک ادارہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کے افسران ایسی ہر کوشش کو ناکام بناتے ہوئے کچھ اور محکموں کو اپنی کارکردگی سے سرفراز کرنے کو ان کے سربراہ لگ جاتے ہیں یوں ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں، آئندہ کچھ برسوں کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ایمان والوں کے لئے اس میں سبق پوشیدہ ہے کہ انہیں اس ادارے کی ملازمت اختیار کرنی چاہئے جس کی بہار پر کبھی خزاں نہیں آ تی۔ ہمارے یہاں تمام سرکاری ملازمین میں سب سے معصوم محکمہ تعلیم کے اساتذہ ہیں جن سے ملکی حالات کے مطابق ہر موقع پر کام لیا جاتا ہے چاہے جلسوں میں لوگوں کی تعداد بڑھائی ہو، پولیو مہم ہو، الیکشن ڈیوٹی ہو یا پھر مردم شماری، وہ بیچارہ پڑھانے کے سوا ملک و قوم کی خاطر ہمہ وقت مصروف ہی رہتا ہے۔
اس پر طرہ یہ کہ ان وجوہات کی بنا پر اگر طلباء پڑھنے نہ آ ئیں تو اس کا زمہ دار بھی وہی ہوتا ہے۔ اس محکمے میں ایک طویل عرصہ کام کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ قوم کے معمار کہلائے جانے والے استاد کا درجہ تعمیرات کرنے والے معمار سے بھی نیچے ہے، جس کا احساس اسے اپنی ریٹائرمنٹ کے واجبات وصول کرنے کے لئے دربار عالیہ المعروف سول سیکرٹریٹ کے اعصاب شکن چکر لگانے کے بعد ہوتا ہے۔
یہ افسر نما معصوم اساتذہ اعلیٰ گریڈ سے ریٹائر ہونے کے باوجودتمام عمر دفتر اور دفتری دونوں سے محروم رہتے ہیں اور ان کے پاس بقول کرنل محمد خان کے کوئی اللہ دین کا چراغ یعنی میز پر رکھی گھنٹی نہیں ہوتی جسے رگڑنے پر جن یعنی دفتری حاضر ہو اور پوچھے "کیا حکم ہے میرے آقا"؟ یہ بیچارے خدا کی دی ہوئی اور بھی بہت سی دفتری نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں لیکن پھر بھی افسر کہلاتے ہیں اور حیرت کی بات یہ کہ خود کو افسر سمجھتے بھی ہیں۔
جیسے ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اسی طرح ہر سرکاری ملازم کو بھی ایک روز اس شے کا مزہ لینا ہوتا ہے جس کا وعدہ اس سے آغاز ملازمت میں کیا گیا تھا اور وقتاً فوقتاً اس کی یاد دہانی بھی کروائی جاتی رہتی ہے، خاص طور سے ملازمت کے آ خری سال جب کچھ میسنے احباب آ کر یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اب تو آپ کا آخری سال چل رہا کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ریٹائرمنٹ سے ایک مہینہ پہلے تو یہ مشورے باقاعدہ پرسے میں بدل جاتے ہیں اور انتہائی دلسوز انداز میں پوچھا جاتا ہے کہ اب آپ کریں گے کیا؟
لیکن ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد یہ افسر نما اپنا جائز حق یعنی اپنے واجبات لینے میں مشغول ہو جاتا ہے اور تقریباً ایک سال تک مشغول ہی رہتا ہے۔ اس دوران سرکار اسے اپنے ظاہر اور پوشیدہ تمام دفاتر کا طواف کرواتی ہے۔ جو اساتذہ اس سسپینس سے بھرپور مہم میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ یقین کیجئے کندن بن جاتے ہیں اور ولایت کے اعلیٰ مقام پر سرفراز ہو جاتے ہیں۔
اس تجربے کے بعد ایک پیر کی طرح اپنے مریدوں یعنی جونئیر اساتذہ کی اچھی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ریٹائرمنٹ ایک سرکاری استاد کی زندگی کا ایک نیا باب ہوتا ہے جو گزری ہوئی زندگی کی ناتمام خواہشوں کی تکمیل کرنے اوربقیہ عمر ریٹائرمنٹ کے خوف کے بغیر گزارنے کا موقع فر اہم کرتا ہے۔