Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rafya Tahir
  4. Kuch Khatoot Waghera Ke Baare Mein

Kuch Khatoot Waghera Ke Baare Mein

کچھ خطوط وغیرہ کے بارے میں

ٹیکنالوجی کے اس تیز ترین دور میں یکدم خط کا چرچا کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ پچھلے بیس سالوں میں سائنسی ترقی کی وجہ سے جو تبدیلی آئی اس کے نتیجے میں لوگوں نے پیغام رسانی کے لئے برقی طریقے اپنا لئے تھے اور روایتی خط کہیں تاریخ کی راہداریوں میں گم ہوتا جا رہا تھا بلکہ ہو چکا تھا۔ یہ صورتحال روایتوں کے پاسدار پاکستانیوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عظیم رہنماؤں کی سر توڑ کوششوں کے نتیجے میں یکایک خط ابلاغ کے اہم ذریعہ کے طور پرابھر کر سامنے آچکا ہے۔

واقعی یہ خطہ زمین روایات کی پاسداری میں اپناثانی نہیں رکھتا۔ قائد کو شائد علم نہ ہو کہ علامہ کے جس خط کی وجہ سے وہ انگلستان سے ہندوستان واپس آئے تھے وہ دراصل ان کے ہاتھوں بننے والی نئی مملکت کی کچھ درخشندہ روایات کی پہلی کڑی تھی۔ ارض پاک کی سیاسی تاریخ ہمیشہ کی طرح شاہد ہے کہ اپنی عمر کے اولین سالوں سے ہی خط اہمیت کے اعلیٰ درجے پر فائز رہا ہے اور یہاں سے خطوط کی بے شمار اقسام ایجاد ہوئی ہیں۔

اپنی پیدائش کے فوراً بعد پاکستان کے راہنماؤں نے خط کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو خطوط لکھنے شروع کر دئیے جس سے مطالعہ پاکستان کے طالب علم اچھی طرح واقف ہیں۔ انسانی تاریخ میں خط لکھنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اولین خطوط چمڑے، کپڑے اورپتوں وغیرہ پر لکھے جاتے تھے۔ نویں صدی میں کاغذ بنانے کا فن براستہ چین مسلم دنیا میں پہنچا تو خط لکھنا آ سان ہو گیا۔ الہامی کتب میں بھی کچھ اہم خطوط کا ذکر ہے جس میں سب سے زیادہ جانا جانے والا خط وہ ہے جو حضرت سلیمان نے ملکہ سبا کو لکھا اور بذریعہ ہدہد ان کو پہنچایا۔

مغرب میں ستر ویں اور اٹھارویں صدی میں خط لکھنا باقاعدہ ایک فن کا درجہ اختیار کر گیا اور مشرق (خاص طور سے برصغیر) میں اردو شعراء اور معاشرے کے اونچے طبقے میں خطوط کی اہمیت بہت بڑھ گئی۔ اردو زبان میں لفظ خط کئی طرح استعمال ہوتا ہے جیسے حرف، لکھا ہوا پیغام یا داڑھی کا خط وغیرہ وغیرہ۔ یہاں خط سے مراد صرف لکھا ہوا پیغام ہے۔ خط کی بہت سی اقسام ہیں جیسے کاروباری خطوط، عاشقانہ خطوط، سیاسی خطوط، ذاتی خطوط اور علمی خطوط وغیرہ۔

میرے پاکستانیوں نے اس فہرست میں دھمکیانا خطوط کا اضافہ کر کے اردو زبان کی بہت خدمت کی ہے۔ پیارے وطن میں خطوط کی تمام اقسام میں سیاسی خطوط سب سے مقبول صنف ہے اور عوام بے صبری سے نئے مراسلوں کے انتظار میں رہتی ہے۔ ویسے تو سرکاری کاغذات میں پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن ہمارے تعلیمی ادارے طلباء میں صرف اردو زبان کا خوف پیدا کرنے میں ہی کامیاب رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے فلمی شاعروں کی لازوال خدمات ہیں۔

ہماری فلمی تاریخ میں خط کے موضوع پر بنائے گئے مقبول گیت اس کا ثبوت ہے۔ ان شاعروں کی تاریخ پاکستان پر گہری نظر کی وجہ سے خط ہمارے معاشرے میں ابھی بھی زندہ ہے۔ چونکہ ہمارے طلبا کو اردو اب بہت مشکل لگتی ہے اور نصاب میں شامل خط کی اقسام اور انہیں لکھنے کے طریقے سمجھنا ان کے لئے نانگا پربت سر کرنے کے مترادف ہے اسی لئے علم دوست سرکار نے ان معصوموں کی مشکل حل کرنے کو ایک انوکھا طریقہ دریافت کیا ہے۔

اس خطوطی مہم میں تمام حکومتی اہلکار، ادارے اور اپوزیشن کے نمائندے بلا تخصیص بڑھ چڑھ کر لیتے رہے ہیں زمانہ حال میں بھی لے رہے ہیں۔ آ ج کل ہم ایک سفارتی خط کے بھنور میں پھنسے بے چارگی سے گھوم رہے ہیں۔ آ خری خبریں آ نے تک خط کی بالادستی کی یہ مہم اب بین الاقوامی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ دیکھ کر دلی اطمینان محسوس ہو رہا ہے کہ مملکت خداداد کسی معاملے میں تو دنیا کی رہنمائی کر رہی ہے۔

ہم وہ نابغہ روزگار قوم ہیں جو ایک خط کی بنیاد پر اپنے وزراء اعظم کو گھر بھیج دیتی ہے اور انہیں آ ئندہ الیکشن تک کے لئے نا اہل بھی کر دیتی ہے اور اب ہم ایک خط کی بنیاد پر باقی دنیا سے اپنا بچا کھچا تعلق توڑنے جا رہے ہیں۔ یہ ہوتا ہے وژن۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم یقیناً اس قومی خدمت کے لئے تعریف کے مستحق ہیں۔ چونکہ اس خطوطی مہم کی وجہ سے ہر پاکستانی بلا تخصیص عمر اس کھوج میں ہے کہ آخر خط میں لکھا کیا ہے لہٰذا طلبا کو خاص طور سے چوکنا رہنا چاہئے کیونکہ جب یہ منظر عام پر آئے گا تو ان کے لئے خط لکھنے کے جدید طریقوں پر یقیناً روشنی ڈالے گا۔

میرے نوجوانوں آپ نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے۔ خط کی اس سیاسی اہمیت کو پہلے داغ دہلوی اور پھر استاد غلام علی صاحب نے بہت پہلے ہی اس پیرائے میں بیان کر دیا تھا:

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

نہ تھا رقیب تو آ خر وہ نام کس کا تھا؟

قومی سطح پر ہم سب آج کل اس رقیب کا نام ڈھونڈنے میں مشغول ہیں۔ اس اہم قومی مہم کی وجہ سےباقی تمام ملکی معاملات اس وقت گہری نیند کے مزے لے رہے ہیں اور ڈالر راکٹ کی رفتار سے اڑا چلا جا رہا ہے اور پاکستان کے زندہ دل عوام مداری کے کرتبوں پر تالیاں بجا رہی ہے۔ ملک میں کمپیوٹر اور موبائل (یعنی متحرک آلہ سماعت) کی وجہ سے نوجوان خط لکھنے کے فن سے یکسر نا آشنا ہو چکے تھے اور اب تو یہ حال ہے کہ وائس میسج یعنی سماعتی پیغام پر ہی گزارا کیا جاتا ہے۔

ایسے دگرگوں حالات میں سرکار نے ایسی چال چلی کہ نوجوان ہکہ بکہ رہ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق تجربے کا کوئی مقابلہ نہیں۔

About Rafya Tahir

Prof. Dr. Rafya Tahir is an educationist and independent art historian.

Check Also

Selfie Program

By Syed Mehdi Bukhari