Chithi Zara Sayyan Ji Ke Naam Likh De
چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے
چٹھی یا خط کے ساتھ قبل ازکمپیوٹر کی نسل کی بہت سی رومانی یادیں وابستہ ہیں۔ چٹھیوں کی ترسیل کے لئے کبوتر اورڈاکیے کا ایک بلند مقام ہوتا تھا اور خطوط لکھنے کے باقاعدہ ماہرین ہوتے تھے۔ ان حالات کی منظر کشی بیسویں صدی کے اوائل کے سٹیج ڈراموں اور بعد کی فلموں میں خوب کی گئی۔ پچاس سے اسی کی دہائی کی فلمی ہیروئن اپنے محبوب کو خط کسی اور سے لکھواتی نظر آ تی ہےاور یوں ناظر کو اس حسینہ کی ناخواندگی اور لکھنے والے کی مہارت کے بارے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے۔
محبوب کو مائل کرنے کوخطوط شاعری کے تڑکے کے ساتھ اردو میں ہی لکھے جاتے تھے۔ فلمی گیتوں کی شاعری بھی اعلیٰ پائے کی ہو تی تھی۔ ویسے اس وقت ارض پاک میں انگریزی میڈیم سکول ابھی پیدائش کے مشکل مرحلے سے دوچار تھے لہذا عوامی ابلاغ کے ذرائع میں انگریزی کی رسائی کچھ کم تھی۔ اس زاویے سے دیکھنے پرفلمی ہدایت کاروں کی ترویج اردو کی کوششوں کو سراہا جاناچاہیئے۔
ان فلموں کے اشہار اور سنیما گھروں کے باہر لگائے جانے والے بورڈ پینٹ کئے جاتے تھے اور دیگر معلومات بھی اردو میں ہی لکھی جاتی تھی ساتھ ہی ساتھ یہ ارٹ کی ایک منفرد صنف بھی سمجھی جاتی تھی۔ اسی کی دہائی کے بعد یہ سلسلہ تھم گیا کیونکہ اردو فلمیں بننا کم ہوتے ہوتے بند ہی ہو گئیں اور یوں قومی زبان بھی پہلے نظروں سے اور پھر دلوں سے بھی اوجھل ہوتی گئی۔ مملکت خداداد کے باشندوں نے اپنے قائد کا اردو کے بارے میں ان کا فرمان دھیرے دھیرے بالکل فراموش کر دیا اور انگریزی کا جادو عوام کے سر چڑھ کر خوب زور سے بولنے لگا۔
اردو کے کئی رسائل واخبارات جو کبھی ہر گھر میں ہونے لازم تھے آہستہ آہستہ معدوم ہو گئےاور اس کے ساتھ ہی اردو خط بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا گیا۔ اور خطوط کا حال کیا سنائیں؟ اپنی ملازمت کے دوران سیاں جی یعنی سرکار نے ہمیں کئی خطوط لکھے لیکن سب کے سب انگریزی میں اور الحمدوللہ ہم سے جواب بھی انگریزی میں ہی وصول کئے کیونکہ آ ج بھی ہماری سرکاری زبان انگریزی ہی ہے۔
آج یہ عالم ہے کہ مملکت خداد کی آئینی سرکاری زبان وینٹی لیٹر پر ہے اور پاکستانی اسے ہر جانب سے کچوکے لگا رہے ہیں۔ انور مسعود صاحب نے نصاب میں انگریزی کےبارے کہا تھا کہ" فیل ہونے کو بھی ایک مضمون ہونا چاہئے" لیکن آ ج کا بچہ اردو کے بارے میں یہ سوچتا ہے۔ انگریزی دور میں اردو کو تخت ملا یعنی سرکاری سرپرستی، آزادی کے بعد تختی یعنی نصاب میں لکھائی سیکھنے کی مشق اور آ ج تختہ یعنی قربت مرگ جسکا اثر آ رٹ کے حلقوں میں بھی نظر آ تا ہے۔
فن خطاطی جو تمام دنیا کی زبانوں کا مقبول فن تھا اور عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی زبانوں میں شاہانہ درجہ رکھتا تھا آ ج اسے مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے۔ آرٹ سکھانے کے اداروں میں اس فن کی تدریس نہ ہونے کے برابر ہےاور اگر کہیں ہے بھی تو اسے عربی زبان کی لکھائی کے ساتھ جوڑ رکھا ہے اردو کے ساتھ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ عربی خطاطی کی نمائش صرف رمضان میں منعقد ہوتی ہے اور بقیہ آ رٹ نمائشوں میں باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے کہ کوئی خطاطی میں کام کرنے والا آ رٹسٹ اپنا کام نہ ہی بھیجے تو اچھا ہے۔
اپنے قومی خط نستعلیق کے ساتھ میرے پاکستانیوں نے یہ سلوک کیا کہ اسے انگریزی یا رومن رسم الخط میں لکھنا شروع کر دیا جو سڑکوں پر لگے بڑے بڑے اشتہارات میں استعمال ہوتا ہے۔ لاہوری نستعلیق کے بانی پروین رقم یقیناً اپنی قبر میں بے چین ہوں گے، مگر ہمیں اس سے کیا۔ اب لکھائی یا خطاطی کو تو ایک جانب رکھیں، ٹی وی پروگراموں یا خبروں میں املا کی ایسی ایسی غلطیاں ہوتی ہیں کہ مزاحیہ پروگراموں کی کمی قطعاً محسوس نہیں ہوتی۔ استاد اکبر الہ آبادی کے بقول
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر سکول جا
آج مملکت خداد کی ہر گلی کوچے میں ماشاءاللہ انگریزی میڈیم سکول کھل چکے ہیں جہاں اردو ایک کونے میں کھڑی سزا کاٹ رہی ہے۔ یعنی اکبر صاحب کی بات پر عمل ہو رہا ہے۔۔ طلباء کی زبان دانی ایک ہائبرڈ شکل اختیار کر چکی ہے (کیا کریں اب اسی کا فیشن چل رہا ہے)۔ کیا اردو بولی، لکھائی یا خطاطی، سب انگریزی کی بیساکھی کے سہارے کھڑے ہیں بلکہ بے ہوش پڑے ہیں۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ جو قوم اپنی زبان کھو دیتی ہے وہ جلد ہی اپنی زمین بھی کھو دیتی ہے، اسی لئے یہ چٹھی سیاں جی یعنی سرکار کے نام لکھ دی ہے جس میں حال اپنے دل کا تمام لکھ دیا ہے۔