Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rafya Tahir
  4. Chaye, Lassi Aur Sattu

Chaye, Lassi Aur Sattu

چائے، لسی اور ستو

انور مسعود صاحب کی پنجابی نظم لسی اور چائے یوں یاد آئی کہ کچھ روز پہلے ہمارے ایک وزیر محترم نے اپنے ہم وطنوں سے چائے پینے میں کمی کی درخواست کی تاکہ معاشی بحرانوں میں پھنسے پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔ ان کے اس بیان کے تناظر میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے سربراہ ادارے ایچ ای سی نے پاکستانی یونیورسٹیوں سے درخواست کر دی کہ وہ اپنی میٹنگز میں چائے کی جگہ لسی اور ستو جیسے مقامی مشروبات کو رائج کریں تاکہ زرمبادلہ کے ساتھ معدوم ہوتی ثقافت کو بھی بچایا جا سکے۔

ویسے بھی ایچ ای سی اچھی طرح جانتا ہے کہ قوم کے معمار، المعروف اساتذہ چائے کے وقفے کے بغیر علم کا بوجھ طلباء تک منتقل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان بیانات کا منظر عام پر آنا تھا کہ وہ پاکستانی جو بڑے سے بڑے بحران میں چین کی نیند میں مدہوش رہتے تھے، اچانک ہڑبڑا کر اٹھے اور سوشل میڈیا پر چائے کے حق میں گھمسان کی جنگ شروع کر دی جو آخری خبریں آنے تک جاری و ساری ہے۔ چائے فوج کے جنگجو سپاہی اور جرنیل اپنے ورچوئل اسلحے کے ساتھ گولہ باری میں مصروف ہیں۔

برصغیر میں چائے کی آ مد انگریزوں کی حکومت سے منسوب کی جاتی ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ چینی قریب 5000 سال سے چائے سے آشنا تھے جس کی حادثاتی دریافت نے انہیں اس مشروب کا گرویدہ بنا دیا۔ ہندوستان اور سری لنکا میں اس کی کاشت کا سہرا انگریزوں کے سر ہے۔ جہاں آسام اور بنگال میں چائے کی کاشت انیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ مقامی آبادی بھی اس کے جال میں پھنسنے لگی۔

چائے کی برصغیر میں کاشت سے قبل یہ ایک درآمدی مشروب تھا جو انگریز حکمران اپنے لئے منگواتے تھے۔ بعد میں چائے یہاں کی مقامی طعامی ثقافت کا حصہ بن گئی۔ چائے کی آمد سے پہلے برصغیر کے لوگ مہمانوں کی تواضع دودھ، لسی، ستو اور انواع و اقسام کے شربتوں سے کرتے تھے جن میں مٹھاس کے لئے گڑ اور شکر کا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ شربت مختلف پھلوں اور میووں سے تیار کئے جاتے جو بہت عرصے تک محفوظ بھی رکھے جا سکتے تھے۔

ان شربتوں کی تعریف یہاں کے شعراء محبوب کی خوبصورت آنکھوں کو شربتی آنکھوں کا نام دے کر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے کچھ نا عاقبت اندیش لوگوں کا خیال ہے کہ آنکھوں والا شربت کوئی اور ہے۔ وللہ عالم بالصواب۔ پاکستان کے قیام کے وقت چائے برصغیر کی ثقافت کا حصہ بن چکی تھی اور اخبارات میں چائے کے اشتہارات بھی چھپتے تھے جو پچھلے پچھتر سالوں میں ابلاغ کے تمام ذرائع پر باقاعدہ ایک مہم کے طور پر چلائے جا رہے ہیں۔

پاکستانیوں کی چائے سے محبت پاکستان کے قومی نشان سے بھی ظاہر ہے۔ یہ نشان 1954 میں باقاعدہ منظور کیا گیا اور آج بھی ملک کی جغرافیائی تبدیلیوں کے باوجود تقریباً ویسا ہی ہے۔ کسی بھی ملک کا قومی نشان اس کی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس نشان میں چاند ستارے، اور چنبیلی کی لڑی کے درمیان اس وقت کے پاکستان کی زراعت کے چار اعشارئے موجود ہیں جس میں کپاس کا پھول، چائے کی پتیاں، گندم کا گٹھا اور جیوٹ کی شاخیں شامل ہیں۔

اس وقت پاکستان دو حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا اور مشرقی حصہ چائے اور جیوٹ کی کاشت کے لئے مشہور تھا۔ 1971 میں مشرقی حصہ ہم سے الگ ہو گیا لیکن پاکستانیوں کی وفاداری قابل رشک ہے کہ اپنے قومی نشان میں سے صرف بنگلہ میں لکھا گیا قائد کا فرمان ہی نکالا، اور بس۔ اپنے قومی نشان کو اسی طرح زندہ رکھنے کے لئے ہم نے چائے کو ایسے اپنایا کہ حکومتیں اپنا بجٹ تباہ کر بیٹھیں۔ آج پاکستان کے درامدی بل کا ایک بڑا حصہ چائے کی درامد پرہی خرچ ہوتا ہے۔

• پچاس اور ساٹھ کیی دہائیوں میں چائے ایک مقبول مشروب ضرور تھا مگر اسے عوامی پذیرائی نا ملی تھی۔ گھروں میں مہمانداری کے لئے گھریلو اور سادہ مشروبات ہی پیش کئے جاتے تھے۔ آ ج یہ حال ہے کہ جگہ جگہ کھلے پاکستانی چائے خانوں نے اپنی ایک مخصوص پہچان بنا لی ہے۔ ان چائے خانوں میں استعمال ہونے والی سبز اور نیلے رنگ کی چینکیں ایک الگ ماحول اور شناخت بناتی نظر آتی ہیں۔ اور شفیق الرحمٰن کے مشہور مضمون "چاء" کی یاد تازہ کر دیتی ہیں جن کے بقول "گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے"۔

اب رہی بات تعلیمی اداروں کی تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ اساتذہ کو چائے ہی چلاتی ہے۔ یہی حال ہمارے ٹرک ڈرائیوروں کا ہے۔ پاکستان کی شاہراہوں پر موجود ٹرک ہوٹلوں میں بننے والی کڑک چائے نیند اڑانے کا لئے اکسیر نسخہ ہے۔ اکثر ٹرکوں کے پیچھے لکھی گئی شاعری میں چائے کا تذکرہ عوام الناس میں اس کی گہری جڑوں کا آئینہ دار ہے۔ ایک ٹرک کے پیچھے لکھا دیکھا۔

عشق روگ ہے دل والوں کا

چائے علاج ہے ان بیماروں کا۔

ایسے حالات میں بیچاری حکومت اور ایچ ای سی کیا کریں؟ رہی بات میرے نوجوانوں کی تو یہ وہ لوگ ہیں جو سوڈا ڈرنک، کافی، چائے اور کچھ نامناسب مشروبات کو تو جانتے ہیں لیکن لسی اور ستو سے ان کا کبھی لینا دینا نہیں۔ لہٰذا چھوٹے، میٹھا روک کے اور پتی ٹھوک کے، دینا ایک چائے۔ رہی بات زرمبادلہ کی تو وہ حکومت کا سر درد ہے۔

About Rafya Tahir

Prof. Dr. Rafya Tahir is an educationist and independent art historian.

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal