Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rafya Tahir
  4. Bachi Kuchi Tareekh

Bachi Kuchi Tareekh

بچی کھچی تاریخ

تاریخ یعنی ہسٹری ایک ایسا مضمون ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد انسانوں کو سبق سکھانا ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ یہ انسان سبق سیکھ کر نہیں دیتے اور تاریخ کو بار بار یہ سبق دہرانے پڑتے ہیں۔ تاریخ قبل از مسیح ہو یا بعد از مسیح، اس کے پڑھائے سبق تقریباً ایک سے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان بہت نالائق ہے جو یہ اسباق ہر بار بھول جاتا ہے۔

باقی دنیا سے تو خیر ہمیں کیا لینا دینا لیکن اپنے ملک کی بات کریں تو تاریخ کے بارے میں پاکستانیوں کی بے اعتنائی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے پہلے نمبر پر ہماری درس گاہوں میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے جس سے مستفید ہونے کے بعد پڑھنے والوں کو روزانہ بدلنے والی تاریخ بھی یاد نہیں رہتی۔ یہ ایک ایسا مضمون ہے جو طلباء کے لئے ہمیشہ مشکلیں ہی پیدا کرتا رہا ہے دلچسپی نہیں۔ یہ مضمون یا تو انہیں غیر دلچسپ لگتا ہے اور یا غیر متعلق۔

پیدائش پاکستان کے اوائل میں یہ مضمون سیکنڈری سکولوں کے نصاب میں شامل تھا اور اس خطے پر حکومت کرنے والے مختلف المذاھب حکمرانوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ آگاہی دے ہی دیتا تھا جس کی بدولت نوجوانوں کو وطن عزیز میں رہنے والے دوسرے مذاھب کے پیروکاروں کے متعلق بھی کچھ علم ہو جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ مطالعہ پاکستان نے اسکی جگہ لے لی اور صرف وہ تاریخ پڑھائی جانے لگی جو وسعت نگاہ کی بجائے کوتاہ نظر نوجوان پیدا کرنے لگی۔ نتیجے کے طور پر ہمارے طلباء اپنی تاریخ کے اصل ماخذ اور ان سے جڑے کچھ لطیف فنون سے بھی نابلد ہوتے گئے۔

اس صورتحال میں دلچسپ موڑ تب آیا جب حالیہ برسوں میں ارض پاک میں ترکی کے بنائے گئے تاریخی ڈرامے (تارخ کم اور ذیب داستان زیادہ) دکھائے جانے لگے۔ ان کی مقبولیت یہ ثابت کرتی ہے کہ عوام تاریخ میں دلچسپی تو رکھتی ہے لیکن حقیقت اور داستان کا تعین نہیں کر سکتی۔ تاریخ شناسی میں ڈرامے کا کردار بہت اہم ہے اگر اس میں تاریخ موجود ہو تو۔ ان ڈراموں میں دکھائی جانے والی عسکری تاریخ صرف خود ساختہ ہیرو کی جنگی کاریگری کے گرد گھومتی ہے۔ ایک فائدہ البتہ ان ڈراموں کا ہوا ہے کہ اب پاکستانیوں کو تاریخ میں دلچسپی کے ساتھ ترک زبان بھی سمجھ آنے لگی ہے۔

دنیا بھر میں تاریخ کو مختلف شاخوں میں بانٹا گیا ہے اور تقریباً ہر علم ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ ان میں سیاسی تاریخ، سماجی تاریخ، مزہبی تاریخ اور فنون لطیفہ کی تاریخ نمایاں سمجھی جاتی ہیں۔ ان تمام میں اگر آرٹ ہسٹری کو ہی نصاب میں شامل کر لیں تو یہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ باقی تمام شاخوں کا بھی احاطہ کر لیتی ہے کیونکہ پرانی تہذیبوں کے بارے میں زیادہ تر معلومات ہم تک ان کے بنائے گئے فنون کے ذریعے ہی پہنچی ہیں اور کسی بھی معاشرے کے فنون اسکے مذہبی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے کے آئنہ دار ہوتے ہیں۔

پاکستان ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں دس ہزار قبل مسیح کی آبادیوں کے آثار ملے ہیں جن میں مہر گڑھ اور دریائے سندھ کے کنارے بسنے والی تہزیبں ہیں۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں گندھارا کی شاندار سلطنت قائم ہوئی اور اسی جگہ پر مغل دور حکومت، سکھ اور انگریزی دور کی ان گنت نشانیاں موجود تو ہیں لیکں جاں بلب ہیں۔ ان حالات کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے تاریخ دشمن نصاب رائج کرنا ہے جو تاریخ دوست شہریوں کی بجائے تاریخ دشمن قوم پیدا کر رہا ہے نتیجے کے طور پر پاکستان کا تاریخی ورثہ سخت خطرے میں ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بچی کھچی تاریخ عمارات اور اس سے جڑے مختلف فنون کی صورت جابجا بکھری ہوئی ہے لیکن ہمارے نوجوان اسے مرے ہوئے لوگوں کی باقیات سمجھتے ہوئے ان پر کوئلے کے ساتھ اپنااور اپنی محبوبہ کا نام لکھ کر دلی خوشی محسوس کرتے ہیں۔

جو معلومات اس مضمون کے ذریعے ہرطالبعلم تک پہنچنی چاہئے وہ صرف ان چند سو طلباء تک پہنچتی جو آرٹ کو اختیاری مضمون کے طور اختیار کرتے ہیں۔ اس نصاب میں بھی ارض وطن سے زیادہ مغربی تہذیبوں کا ذکر زیادہ ہے۔ جو طلباء آئندہ بھی یہ مضمون پڑھنا چاہیں ان کے لئے ایک ایسا نصاب ترتیب دیا گیا ہے جو سراسر مغربی فنون اور وہاں پیدا ہونے والی تحریکوں پر مشتمل ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان میں تخلیق ہونے والا زیادہ تر آرٹ یہاں کے سماجی حالات سے قطعاً غیر متعلق ہوتا ہے اور میرے نوجوان اپنی تخلیقات میں مغرب کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔

بات تاریخ کی ہو تو معلوم ہوتا ہے اپنی کوششوں سے ارض پاک کے باسیوں نے کچھ جدتیں بھی پیدا کی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے اپنا قومی رنگ سیاہ کر لیا ہے کیونکہ پچھتر سالہ تاریخ کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے اتنے یوم سیاہ منائے ہیں کہ اب بجا طور پر ہمارا قومی رنگ سیاہ ہو سکتا ہے۔

بات قوم کی ہو تو ہم اپنے تاریخی ورثے کو بھی بخوشی تبدیل کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے ماضی میں باغات، سڑکیں اور عمارات بنائیں جو ان کے ناموں سے منسوب ہیں، ہم نا صرف ان کے نام بدل کر راتوں رات تاریخ بدلنے میں مصروف ہیں بلکہ اس پر خوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔ سیاسی تاریخ میں پاکستانیوں نے یہ جدت کی کہ سیاست دان ہر لمحہ ایک دوسرے کو پلس اور مائنس کرنے میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے حساب کے تاریخی اصول بھی بدل گئے ہیں۔

ویسے تو میرے عزیز ہم وطن یہ کہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں کہ تاریخ جیسے بورنگ مضمون سے ان کا کیا لینا دینا لیکن جب بچوں کے رشتے کرنے کی باری آئے تو اپنی خاندانی تاریخ بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور اس مقصد کی خاطر ماہرین کی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔ سماجی اور معاشرتی تاریخ میں نت نئی گالیوں کو فروغ دے کر بھی نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔

اس صورتحال میں اگر آرٹ ہسٹری کو نصاب میں شامل کیا جائے تو ممکن ہے کہ ہمارے طلباء میں ناصرف اپنے تاریخی ورثے سے محبت پیدا ہو بلکہ ان کی جمالیاتی تربیت بھی ہو سکے۔

About Rafya Tahir

Prof. Dr. Rafya Tahir is an educationist and independent art historian.

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez