Mojood o Ghair Mojood
موجود و غیر موجود
جب ایک موجود دوسرے موجود کو نظر انداز کرتا ہے۔ تو دوسرا موجود اپنی تمام تر رعنائی کے باوجود پہلے موجود کو دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں تک دکھائی نہیں دیتا کہ دوسرے موجود کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ موجود نہیں ہے۔
اپنی دوست کو بتاتے ہوئے اچانک اسے لگا کہ جیسے وہ موجود نہیں۔۔ ہیلو۔۔ ہیلو۔۔
وہ گھنٹوں غیر موجود بیٹھی رہی۔ اتنے میں وہ گھر میں داخل ہوا، اسے نظر انداز کرکے اس کے سامنے سے چپ چاپ نگاہیں جھکائے گزر گیا۔
وہ بھاگی اور شیشے میں دیکھنے لگی۔۔ سرخ ہونٹ۔۔ جس پر اس کے تمام کلاس فیلو مرتے تھے۔۔ یکدم سیاہ ہو گئے۔۔ پھر اس کی موٹی آنکھیں۔۔ جس میں ہر کوئی ڈوبتا چلا جاتا تھا۔۔ کہیں ڈوب گئیں۔۔ پھر اس کا سڈول بدن، اس کی کلائیاں، نرم انگلیاں، سنہرےبال سب کہیں کھو گئے۔۔ وہ اپنی غیر موجودگی کو سنبھالتے ٹیرس پر جا کھڑی ہوئی۔۔ وہ سوچنے لگی وہ کتنے مہینوں سے غیر موجود ہے۔ یا وہ سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ وہ ہوا میں پھیلی دھندلنی سی یادوں کو ہاتھ سے ٹٹولنے لگی۔
اسے یاد آنے لگا کہ جب وہ موجود تھی تو سب کچھ موجود تھا۔ ہنسی، قہقہے، باتیں اور محفلیں۔۔ پھر وہ سوچنے لگی کہ کیسے ایک موجود نے اسے غیر موجود میں تبدیل کر دیا۔۔ وہ رونے لگی۔ اس کے رونے سے اس کا سارا حسن بکھر گیا۔ اور وہ اپنے آنسؤں سمیت کسی کے لیے غیر موجود رہی۔ اس کا دکھ بھی اس کا وجود بھی۔۔
اگلے روز پھر گیٹ پر گاڑی کی آواز آئی وہ دوڑی۔ تیزی سے سیڑھیاں اترتے اس کی پہلے موجود پر نظر پڑی۔۔ فرط محبت سے اسے لگنے لگا کہ وہ موجود ہے۔ وہ آگے بڑھی۔۔ اس کے ہاتھ سے بیگ پکڑا۔ وہ بات کیے بنا اور کسی بات کا جواب دیے بنا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اس نے پیچھے سے پکارنا چاہا لیکن آواز نے ساتھ نہ دیا۔ وہ بے ساختہ رونے لگی۔ اسے لگنے لگا کہ اس کی نہ سنی گئی ساری آوزیں کہیں دفن ہوگئی ہیں۔ اور وہ گونگی ہے۔
وہ اپنے بکھرے ہوئے حسن کو وہیں چھوڑے ٹیرس پر چلی گئی۔۔ سامنے گھر میں وہ دیکھتی ہے دو موجود ایک دوسرے کے ساتھ موجود ہیں۔ مکمل طور پر موجود۔۔ واضح دیکھ سکتی تھی ان کی موجودگی۔۔ وہاں ہنسی بکھر رہی تھی۔ ایک نسبتاً کم خوبصورت نسبتا زیادہ خوبصورت موجود کے ساتھ۔۔ بہت پر لطف گفتگو چل رہی تھی۔ ایک موجود دوسرے موجود کے گال سہلاتا ہے۔
وہ اپنے گال چھوتی ہے۔۔ جو وہاں موجود نہیں ہوتے۔۔ نظر انداز کر دیا گیا اس کا سارا وجود وہاں کہیں نہیں تھا۔ وہ پھر سے رونے لگتی ہے۔ اسے اپنا وجود تلاش کرنا تھا۔ وہ وجود جو بہت سی صلاحیتوں کا کبھی مالک تھا۔ وہ خود سے باتیں کرتے کرتے تھک چکی تھی۔ اب تو کئی روز سے بلکل خاموشی تھی۔ وہ اپنے ساتھ بات نہیں کرتی تھی۔ اور خود اس کے اندر سے بھی کوئی آواز نہیں ابھرتی تھی۔
وہ خالی پن سے بھرا وجود سنبھالے اٹھی شیشے میں دیکھے بنا تیزی سے کمرے میں گئی اور دروازے کو کنڈی لگا دی۔۔ وہ پہلے موجود کے سامنے نہیں آئی۔۔ پھر کبھی نہیں آئی۔۔
روزانہ پہلا موجود سیڑھیاں چڑھتا ہے۔ لیکن اسے بیگ خود اٹھانا پڑتا ہے۔
خود بیگ اٹھائے چڑھنا کتنا دشوار ہوتا ہے نا؟ پہلے موجود نے سرگوشی کی۔۔ لیکن سننے کے لیے کوئی موجود نہ تھا۔ وہ اپنے آپ پر ہنسا۔۔ روز ہی تو لے کر چڑھتا ہوں۔۔
صبح چائے کی میز پر خالی پیالیاں تھیں۔۔ ناشتہ خود کیسے بناؤں۔۔ ہر چیز بکھری ہے۔۔ وہ خود بھی۔۔ کپڑے دھلے اور صاف ستھرے نہیں۔۔ دفتر جانے کی جلدی لیکن ناشتہ نہیں۔۔ اور پہلا موجود وہیں قریب کرسی پر ڈھیر ہو جاتا ہے۔
آج دفتر نہیں جا سکوں گا۔۔ ناشتہ آن لائن ڈلیوری سے پہنچ گیا۔۔ ناشتہ کھولتے اسے یاد آیا کہ روزانہ تازہ ناشتہ میز پر کون سجاتا تھا؟
اس کے کپڑے ترتیب سے کون رکھتا تھا۔۔ گھر کا کونا کونا کیسے چمکتا تھا۔۔ کیا میرے علاوہ بھی یہاں کوئی موجود تھا۔۔ لان کی گھاس کتنی بڑھ چکی ہے۔۔ اور وہ دیکھتا ہے اس کی ذات میں جا بجا کانٹے اور جھاڑیاں ہیں۔۔ اسے تلاش کرنے پر ایک بھی پھول نہیں ملتا۔
وہ ایک ایک کرکے ان جھاڑیوں کو کاٹنے لگتا ہے۔۔ سوچتا ہے کہ ان کانٹوں سے کوئی زخمی ہوا ہوگا۔ وہ زخمی تلاش کرنے لگتا ہے۔ کہ اچانک اسے دوسرا موجود یاد آتا ہے زخموں سے چور اس کی سرخ آنکھیں یاد آتی ہیں۔ اور نظر انداز کر دیا گیا سراپا۔۔ وہ دوڑتا ہے تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہے۔۔ ایک کے بعد ایک بند دروازہ کھلتا ہے۔
لیکن وہاں ہوا اور اندھیرے کے سوا کچھ موجود نہیں۔۔ تو کیا کسی کی موجودگی میرا وہم تھی۔۔ کیا اس قدر نظر انداز کر دیے جانے سے موجودگی وہم بن جاتی ہے۔۔ وہ سوچتا ہے تو اسے کچھ عکس دکھائی دیتے ہیں دروازے کے پاس، سیڑھیوں میں، کچن میں، ٹیرس پر سرخ، سبز اور پیلے عکس۔۔ وہ ان سے تصویر بنانے لگتا ہے۔ تصویر بنتے ہی اس کے گرد پھول کھلنے لگتے ہیں۔ وہ انا کے سب دائروں کو پھلانگتا اسے پکارنے لگتا ہے۔ دیوانہ وار دوڑتا ہے۔ پورے گھر میں۔۔ پکارتا ہے۔۔ اچانک اس کے کندھے پر ایک لمس موجودگی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ چونکتا ہے۔۔ پلٹتا ہے۔۔ بکھرا ہوا حسن۔۔ وہ تیزی سے سمیٹتا ہے۔