Gadfly Muashre Ka Zameer
گَیڈفَلائی معاشرے کا ضمیر

ہمیشہ مجھے ایک عجیب سی بے چینی گھیر لیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کائنات کا کوئی نامعلوم گوشہ مجھ سے سوال کر رہا ہو، کیا ہم واقعی صحیح کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے اصول، ہماری روایات اور ہماری معاشرتی قدریں واقعی اتنی مقدس ہیں کہ اُن پر سوال نہ اٹھایا جائے؟ یہ وہ لمحات ہیں جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کو کچھ بے چین روحوں کی کتنی اشد ضرورت ہے، جو ہمیں آئینہ دکھا سکیں، جو ہمیں سچ کا سامنا کرنے پر مجبور کر سکیں، چاہے وہ کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو۔
یہی بے چین روحیں دراصل وہ "گَیڈفَلائیز" ہیں، جنہیں فلسفیانہ اصطلاح میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو معاشرتی بے حسی کو چیلنج کرتے ہیں، روایتی سوچ پر سوالات اٹھاتے ہیں، فرسودہ نظام اور سوچ کو جھنجھوڑتے ہیں اور ہماری خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ گَیڈفَلائی دراصل ایک مکھی ہے جو مویشیوں کو کاٹ کر انہیں بیدار رکھتی ہے اور اسی طرح یہ بے چین روحیں بھی معاشرے کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔
تاریخ کے صفحات پلٹیں تو سقراط ہمیں سب سے پہلے ایسے گَیڈفَلائی کی صورت میں نظر آتا ہے جو اپنے سوالات اور دلائل سے ایتھنز کے شہریوں کو بے آرام کر رہا تھا۔ اُس نے کبھی یہ پروا نہیں کی کہ اُس کی باتیں کتنی غیر مقبول ہوں گی، اُس کا مقصد صرف ایک تھا، سچ کی تلاش اور معاشرے کی اصلاح۔ اُس کے سوالات کڑوے تھے، اس کے دلائل تلخ تھے، مگر اُس کا انجام یہ بتاتا ہے کہ سچ کا راستہ ہمیشہ کانٹوں بھرا ہوتا ہے۔ زہر کا پیالہ پینا شاید اُس کے لیے ایک جسمانی موت تھی، مگر اُس کی فکر آج بھی زندہ ہے، ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے، سوالات اٹھا رہی ہے۔
آج بھی ہمارے اردگرد ایسے گَیڈفَلائیز موجود ہیں، چاہے وہ صحافی ہوں، سماجی کارکن، یا اصلاح پسند، جو ناانصافیوں، کرپشن اور معاشرتی منافقت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں ایسے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سچ بولا، بدعنوانی کو بے نقاب کیا اور معاشرتی برائیوں پر کھل کر تنقید کی۔ ایسے لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اصل مسئلہ وہ نہیں جو نظر آتا ہے، بلکہ وہ ہے جو چھپا ہوا ہے۔
اکثر صحافی جو بڑے اسکینڈل کو بے نقاب کرتے ہیں اس کے بعد مسلسل دھمکیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کے دوست، رشتہ دار، حتیٰ کہ ان کے اپنے ادارے کے لوگ بھی اُن سے دور ہونے لگتے ہیں۔ مگر وہ ہار نہیں مانتے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں جان کر مجھے احساس ہوا کہ گَیڈفَلائی بننا کتنا تنہا اور مشکل راستہ ہے، مگر شاید یہی راستہ ہمیں اُس معاشرے کی طرف لے جا سکتا ہے جہاں حق اور انصاف کی کوئی قیمت نہیں چکانی پڑتی۔
اکثر سیاست دان بھی اس کی قیمت چکاتے ہیں۔ انھیں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ قتل کر دیے جاتے ہیں یا پھر تنہا کر دیے جاتے ہیں۔
خاموشی کو توڑنے والے صرف سماجی سطح پر ہی نہیں، دفتروں میں بھی ایسے گَیڈفَلائیز کی کمی نہیں جو بدعنوانی، ناانصافی اور غیر مؤثر پالیسیوں پر کھل کر سوالات کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسے لوگوں کو باغی، منفی سوچ رکھنے والا، یا ٹیم ورک کے خلاف سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہی لوگ ہوتے ہیں جو ادارے کی شفافیت اور کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔ میں نے خود ایسے ملازمین کو دیکھا ہے جو میٹنگز میں مشکل سوالات اٹھاتے ہیں، ای میلز میں مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور مینجمنٹ کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انھیں دبایا جاتا ہے۔ لیکن وہ اپنی کوشش جاری رکھتے ہیں۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ گَیڈفَلائی صرف مخالفت برائے مخالفت نہیں کرتا، بلکہ اُس کا مقصد ہمیں سوچنے، سمجھنے اور بہتر بننے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ترقی اور اصلاح ہمیشہ آسان راستوں سے نہیں آتی۔ ہر بڑے انقلاب، ہر بڑی تبدیلی کے پیچھے کسی نہ کسی گَیڈفَلائی کی بے چینی، اُس کے کڑوے سوالات اور اُس کی تلخ سچائیاں شامل رہی ہیں۔ گیڈ فلاحی دوسروں سے منفرد سوچتا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ وہ غلط ہوتا ہے۔ منفرد ہونا کتنا مشکل ہے۔ بھیڑ سے الگ چلنا۔ بہتے پانی کی مخالف سمت میں سفر کرنا۔ گیڈ فلائی اپنی فطرت سے مجبور بھنبھناہٹ جاری رکھتا ہے۔ وہ بات کرتا رہتا ہے۔ لوگ اسے خبطی، پاگل اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ مگر وہ سچائی کا دامن تھامے رکھتا ہے۔
ہم سب کو ایک گَیڈفَلائی بننا ہوگا چاہے وہ کسی ظالم نظام کے خلاف ہو، کسی ناانصافی پر سوال اٹھانا ہو، یا اپنے ہی اندر چھپے جھوٹ کو بے نقاب کرنا ہو۔ کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم اپنے معاشرے کے ضمیر کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان بے چین روحوں کی ضرورت ہے۔ ان گَیڈفَلائیز کی جو ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار رکھ سکیں۔ اپنے اندر کے جھوٹ کو بے نقاب کرنا سب سے اہم ہے۔ گیڈ فلائی اپنی بھی اصلاح کرتا ہے۔
معاشرے کا اصل المیہ یہ نہیں کہ برائی موجود ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے برائی کو قبول کر لیا ہے۔ گَیڈفَلائی ہمیں یہی یاد دلاتے ہیں کہ خاموشی کبھی حل نہیں ہوتی اور اگر ہم سچ کا ساتھ نہیں دیں گے، تو جھوٹ خود بخود غالب آ جائے گا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم بھی کبھی کبھار سوالات اٹھائیں، روایات پر نظرثانی کریں اور اگر ضرورت پڑے تو ایک گَیڈفَلائی بن جائیں، چاہے اُس کی قیمت تنہائی ہی کیوں نہ ہو۔