Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qurratulain Shoaib
  4. Dementia

Dementia

ڈیمینشیا

میں جب اونچائی کی طرف سفر کر رہی تھی تو وہ اتر رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں ویرانی اور میرے چہرے پر؟ میرے چہرے پر کیا تھا؟ پر میرا تو چہرہ ہی نہیں تھا۔ لیکن اس نے دیکھ لیا تھا۔۔ ہاں اس نے دیکھ لیا تھا۔ کیسا چہرہ ہوگا جو اس نے دیکھا ہوگا۔ میرا بلندی کی طرف سفر کرتا ہوا چہرہ۔ لیکن میرے پاس تو کوئی چہرہ نہیں تھا اس نے خود سے تخلیق کیا ہوگا۔ شاید اس نے سکیچ بنا کر اس میں رنگ بھرے ہوں گے۔

وہ نیچے اتر رہا تھا پستی کی طرف جاتے ہوئے یہ اس کی مجھ پر آخری نگاہ تھی۔ اس نے مجھے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یا اس نے مجھے مکمل کبھی نہیں دیکھا۔ یا وہ مجھے دیکھنے کا خواہش مند ہی نہیں تھا۔ مجھے یاد آیا وہ دیکھ بھی کیسے سکتا تھا۔ وہ تو اندھا تھا۔ ہاں وہ تو اندھا تھا۔ میرے پاس تو چہرہ تھا۔ لیکن کیسا چہرہ تھا؟ میں نے تو برسوں سے آئینہ نہیں دیکھا۔ کیا آئینہ درست چہرہ دکھاتا ہے؟ کہاں ہے میرا آئینہ؟ میں ابھی دیکھتی ہوں۔ اوہ۔۔ شاید بلندی کی طرف سفر کرتے وہ کہیں گر کر ٹوٹ گیا ہے۔

میں اب اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکوں گی۔ کیا جب ہم اپنا چہرہ نہ دیکھ سکیں تو ہم بے چہرہ ہو جاتے ہیں؟ اور جب ہم خود کو بھی نہ مکمل دیکھ پائیں تو ہم موجود نہیں ہوتے؟

یہاں بلندی پر کتنی گھٹن ہے۔ شاید میں زیادہ بلندی پر آ گئی ہوں۔ آکسیجن کا لیول کم ہو رہا ہے اور گھٹن بڑھ رہی ہے۔ مجھے تو پستی اور بلندی کے درمیانی راستے پر رہنا چاہیے تھا۔ لیکن مجھے چڑھنے کی جلدی تھی میں درمیانی راستے کا تعین نہیں کر پائی۔

یہاں اونچائی پر بہت سکوت ہے۔ لیکن اندرونی کشمکش بیرونی سکوت میں خلل ڈال رہی ہے۔ میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ میرے پاس ہاتھ ہیں میں اپنے اور اس کے درمیان فاصلے کو ناپ سکتی ہوں۔ لیکن اس فاصلے کو دیکھ نہیں سکتی۔ تو کیا میں بھی اندھی ہوں۔ کیا اندھا ہونے سے ہم سمعتوں کے تعین سے بھی محروم ہو جاتے ہیں؟ اور تمام عمر بے سمت سفر کرتے رہتے ہیں؟

میرے پاس آنکھیں تو ہونی چاہیں تھیں۔ میں نے آخری بار آنکھیں کہاں رکھی تھیں؟ دماغ ہے میرے پاس۔ ہاں ہاں میرے پاس دماغ ہے۔ دل پر حاوی دماغ۔ بتاؤ  اے دماغ میں نے آخری بار آنکھیں کہاں رکھی تھیں۔ ہاں ہاں یاد آیا جب اس نے پستی کی طرف جاتے مجھ پر آخری نگاہ ڈالی تھی۔ وہ میری آنکھیں ساتھ لے گیا تھا۔ اور دل؟ دل کہاں رکھا ہے۔ دل تو اپنے مقام پر ہے۔ لیکن یہ کوئی آواز پیدا نہیں کرتا۔ یہ آخری بار کب دھڑکا ہوگا۔ لمس لمس ہاں ہاں لمس ایک لمس۔ لیکن وہ کس کا لمس تھا۔ دماغ دماغ دماغ۔۔ ہاں جب میں بے سمت بھاگ رہی تھی اس کے ہاتھ نے بڑھ کر مجھے روکنا چاہا تھا۔ ہاں یہ اسی لمحے دھڑکا تھا۔ یعنی دل دھڑکتا تھا پہلے۔ لیکن میں نے سفر کیوں کیا اور کیا سفر کی خواہش اتنی بری ہے کہ دل دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے؟

ہاں بے سمت سفر کی خواہش بہت بری چیز ہے۔ کون بولا؟ یہاں تو صرف میں ہوں۔۔ یہ گھٹی سی آواز کس کی ہے۔

یہاں دیکھو اپنے اندر جھانکو یہ میں تمھارا دل ہوں۔

تو تودھڑکتا کیوں نہیں

دھڑکنے کا سبب نہیں رہا

کیا سبب تھا دھڑکنے کا

وہی جسے تم پستی اور بلندی کے درمیانی راستے پر چھوڑ آئی تھی۔

لیکن وہ تو نیچے اتر رہا تھا

نہیں وہ وہیں کھڑا تھا۔

لیکن وہ تو اندھا تھا

نہیں اس نے تمھیں مکمل دیکھ لیا تھا۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra