Bache Aisa Kyun Karte Hain?
بچے ایسا کیوں کرتے ہیں؟

ہر بچے کی عادات اور فطرت مختلف ہوتی ہے۔ ایک بچے کو ہم نے کیسے ڈیل کیا اس فارمولے کو دوسرے بچے پر لاگو نہیں کر سکتے۔ کچھ بچے ایک بار کہہ دینے سے چپ کرکے بیٹھ جائیں گے۔ دوسرے بچے جو بار بار کہنے سے بھی نہیں بیٹھیں گے۔ اسی طرح ایک بچہ ہر وقت روتا رہتا ہے جب کہ دوسرا مسکراتا رہتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہےاگر کوئی چیز ایک بچے کو اچھی لگی تو دوسرے بچے کو بری بھی لگ سکتی ہے۔
بچے کی نفسیات کو سمجھنا سب سے اہم ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ یا اس کے عمل کے پیچھے کے محرکات کیا ہیں۔ اس کی پسند نا پسند کیا ہے۔ وہ کیا سوچتا اور کیا چاہتا ہے۔ میں بچوں سے منسلک مختلف اداروں میں کام کرچکی ہوں۔ ایک سکول میں بطور کیمپس ڈائریکٹر کام کر رہی تھی۔ ایک دن ایک ٹیچر ایک بچے کو میرے پاس لائیں جو پہلی کلاس کا طالب علم تھا۔ بچہ کی عمر سات سال تھی۔ وہ غصہ سے سرخ ہوئے جا رہی تھیں کہ مس i cant handle this child anymore.
میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں میڈم یہ روزانہ ڈرائنگ کی کلاس میں اتنی اچھی ڈرائنگ کرتا ہے اور میرے فائل میں لگانے سے پہلے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیتا ہے یہ بہت بدتمیز بچہ ہے۔ میں اس کی یہ بدتمیزی مزید برداشت نہیں کر سکتی۔
اس وقت میں سمجھ گئی کہ بچہ چھوٹے کاغذ کے ٹکڑے کیوں کرتا ہے۔ ٹیچر کو کہا آپ چھٹی کے وقت ملیں۔ بچے کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ آپ نے اس کے ٹکڑے کرکے کیا کرنا تھا۔ وہ ڈرا سہما جواب نہیں دے پایا نہ ہی چہرہ اپر اٹھا رہا تھا۔ میں نے دوستی کرنے کے لیے اسے چاکلیٹ تھما دی۔ پھر پوچھا کہ آپ ان ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ کر تصویر بنانا چاہتے ہو۔ وہ مسکرا دیا اور کہتا جی۔ میں نے اسے گلو دی پیپر دیا اور کہا آپ بناؤ۔ وہ بچہ اتنا خوش تھا کہ جیسے اس نے کوئی خزانہ حاصل کر لیا۔ اس کی باڈی لینگویج تبدیل ہوگئی۔ وہ جو سر جھکا کر آنسو بہا رہا تھا۔ تیزی تیزی سے ٹکڑے جوڑنے لگا۔
چھٹی کے بعد ٹیچر کو بٹھا کر سمجھایا کہ بچہ کیا چاہتا تھا اور اس کی نفسیات کیا تھی۔ تو اس نے کہا میں نے اس پہلو پر کبھی نہیں سوچا۔ انھیں سمجھایا کہ بچے کا ہر عمل بدتمیزی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ہر عمل کے پیچھے کوئی محرک ہوتا ہے اسے تلاش کیا کریں۔
ایسے کئی اور واقعات ہیں جہاں بچے کی نفسیات کو سمجھے بغیر اسے دباو اور مار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کیا چاہتا ہے، ایسا کیوں کرتا ہے اس کے عمل کے پیچھے کی وجہ کوئی جاننا نہیں چاہتا۔ نہ اساتذہ نہ ہی والدین۔
ہر بچہ منفرد شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ ہر بچے کے جذبات، کیفیات اور پھر ردعمل مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی ایک بچہ دوسرے بچے جیسا نہیں ہوتاہے۔ اکثر والدین اور اساتذہ بچوں کا موازنہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں کہ فلاں کا بچہ تو بہت ذہین ہے یا وہ پوزیشن ہولڈر ہے۔ کھیل میں اچھا ہے۔ آپ بھی اس جیسے بنو۔ کوئی ایک بچہ دوسرے بچے جیسا کبھی نہیں بن سکتا۔ ہر بچے کی اپنی الگ شناخت، سوچ اور فکر ہے۔ اس کی اپنی الگ دنیا ہے۔ بچے کو اس کے اندر کا جہاں خود تسخیر کرکے آباد کرنے میں اس کی مدد کریں۔ ہر بچے کے دل و دماغ کی دنیا الگ ہے۔ صلاحیتیں اور خواب الگ ہیں۔
سکولوں میں بچے کا رویہ ان کی تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے ایک بچے پر اپنائی گئی حکمت عملی دوسرے پر لاگو کرنا مؤثر نہیں ہوتا۔
بچہ جس رویے کا اظہار کرتا ہے، اس کے پیچھے کوئی محرک ضرور ہوتا ہے۔
جو بچہ ہر وقت روتا ہے یا جو بچہ ہر وقت ہنستا ہے، دونوں کے پیچھے کوئی نفسیاتی، جذباتی یا جسمانی محرک ہوتا ہے۔ جیسے توجہ کی کمی، خود اعتمادی کی کمی، کسی اندورنی خوف یا دباؤ کا اظہارِ، اظہارخیال کے دوسرے ذرائع کی کمی۔ تخلیقی بچوں کے جذبات کی پیچیدگی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ والدین اور اساتذہ عموماََ ظاہری رویے کو دیکھتے ہیں، اندرونی وجوہات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جب کہ ایک باشعور استاد یا نگہبان وہ ہوتا ہے جو یہ سوال کرے کہ بچہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟
والدین اور اساتذہ مشاہدہ کریں کہ اس بچے کے رویے کے پیچھے کیا وجہ ہے۔ بچے کی باڈی لینگویج، بول چال اور معمولات پر نظر رکھیں۔
غور کریں اور ہر عمل کے پیچھے محرک کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بچوں سے مختلف سوالات کریں۔ بچے سے براہِ راست نرمی سے بات کریں۔ بچے کو اس کے مسائل کا حل دیں، سزا نہیں نہ ہی مار اور ڈانٹ۔ اگر آپ انھیں نہیں سمجھ پا رہے تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ اس کی مدد لیں۔
اگر والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ بچہ جو کچھ بھی کرتا ہے اس کے پیچھے کوئی محرک ضرور ہوتا ہے۔ تو بہت سے بچے صحت مند اور خوشگوار بچپن گزار سکتے ہیں اور اس خوشگوار بچپن کے اثرات ان کی آنے والی نسلوں تک جائیں گے۔ اس طرح صحت مند اور خوشحال نسلیں پروان چڑھ سکتی ہیں۔
بچوں کو نفسیاتی طور پر مضبوط بنانا اساتذہ اور والدین کے ساتھ ساتھ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سکولوں میں چائلڈ کانسلرز کی تعیناتی کو ممکن بنائیں اور جن سکولوں اور بچوں کے اداروں کے پاس کانسلرز نہ ہوں انھیں مہیا کرے۔ یہ بہت حد تک ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مد میں عوام میں شعور اجاگر کرے۔ جب والدین، اساتذہ اور ریاست بچوں کی نفسیات کے حوالے سے ایک پیج پر ہوں گے تو ہی ہمارا معاشرہ بہت سے نفسیاتی مسائل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو سکے گا۔

