Zameer Ki Khalish
ضمیر کی خلش
ہمارے ہاں جب بچہ بولنے لگتا ہے تو والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ کا نام لے، پھر اس کے سامنے کلمے کا ورد ہوتا ہے اور بچہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں، ٹکڑوں ٹکڑوں میں کلمہ بھی پڑھنے لگتا ہے۔ جب چلنے کے قابل ہوتا ہے تو سب سے پہلے مسجد میں امام صاحب کے سامنے قرآن پڑھنا سیکھتا ہے، پھر سکول میں دینیات، سیرت النبی کے مضامین پڑھتا ہے اور گریجویشن تک عربی اور اسلامیات لازمی مضامین کے طور پر پڑھتا ہے۔
اس کے علاوہ جمعہ عیدین کے خطبات اور دیگر مذہبی تقاریب میں خطبات بھی تقریباً سبھی سننے جاتے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے ہمارے ملک میں حجاج اور پانچ وقت کے نمازی، حفاظِ قرآن، قراء حضرات اور دیگر علمائے دین دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک سے کم نہیں، اتنی دینی تربیت کے باوجود 22 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں شاید ایک شخص بھی ایسا تیار نہیں ہوا جو دنیا کی عارضی عیاشی کو لات مار کر سچ بول کر بدنامی، شکست یا کسی فرعون کی ناراضگی مول لے لے لیکن عاقبت سنوار جائے۔
جرمنی میں ایک شخص نے جس کا اپنی بیوی سے جھگڑا چل رہا تھا، کمال ہوشیاری سے اسے قتل کر دیا اور کوئی ثبوت نہ چھوڑا، بالآخر پولیس نے اسے خودسوزی کا واقعہ قرار دے کر کیس ختم کر دیا لیکن اس شخص کو اطمینان نہیں آ رہا تھا، جب کیس بھی ختم ہوگیا اور دوبارہ ٹرائل کا بھی امکان نہیں لیکن اس کے ضمیر نے اسے چین نہ لینے دیا اور ایک دن بھاگ کر پولیس اسٹیشن پہنچا اور اقرار جرم کیا اور سزا کیلئے خود کو پیش کر دیا۔
جنوبی افریقہ کے کرکٹر ہنسی کرونیئے پر جوئے کا الزام لگا جس پر وہ ہمارے جواریوں کی طرح ہہلے مکمل انکار کر گیا، انکار کے بعد وہ بھی بے چین رھنے لگا، ایک روز چرچ میں پادری کے پاس چلا گیا تو پادری نے کہا کہ جو بھی ہے بالکل سچ سچ بتا دو، وھیں سے واپس آ کر پریس کانفرنس کی، اپنے جرم کا اعتراف کیا، اپنا سارا کیریئیر تباہ کر دیا لیکن اپنے ضمیر کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔
اسلام کے نام پر بنے اس ملک میں، جسکو اسلام کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے، آئے روز درجنوں معصوم لوگ نہایت بے دردی سے قتل کر دیئے جاتے ہیں، سینکڑوں لوگ زندہ جلا دیئے جاتے ہیں، بچے تک قتل کر دیئے جاتے ہیں، مقتولین کے ورثاء سالہا سال تھانوں اور عدالتوں میں خجل ہوتے ہیں، کبھی قاتل نا معلوم تو کبھی ثبوت ناکافی لیکن اسلام کے اس قلعے میں آج تک ایک قاتل کے ضمیر میں خلش نہ ہوئی، اسکی نیند نہ اڑی کہ وہ بھاگ کر پولیس اسٹیشن جائے اور جرم کا اعتراف کرے اور ضمیر کے اس بوجھ سے آزادی پائے۔
آج کل عدالتوں میں ہائی پروفائل کیسز چل رہے ہیں، یہ وہ کیسز ہیں کہ جنکا ملکی عزت و وقار، اداروں کی عزت و وقار سے ڈائریکٹ تعلق ہے، ملکی بقاء و سلامتی سے تعلق ہے، یہ بالکل عیاں ہے کہ ہر دو فریقین میں سے کوئی ایک لازماً جھوٹا ہے اور اس کے اس جھوٹ کی وجہ سے ملک کی سالمیت تک کو خطرہ ہے، ایک طرف ملک ہے اور دوسری طرف پانی کے اس بلبلے کا مفاد، بس ایک سچ بولنا ہے اور سب کو بچانا ہے، بلبلے نے تو ویسے بھی کب تک بچے رھنا ہے، لیکن ضمیر کی وہ خلش جو کسی انسان کو سچ بولنے اور انصاف کا بول بالا کرنے کیلئے اپنی عزت اپنی شہرت اور یہاں تک کہ اپنی جان تک دینے پر آمادہ کرتی ہے، وہ خلش کوئی نصاب اس قوم میں پیدا نہ کر سکا۔
وہ خلش جو ایک جرمن نے تربیت میں پائی، وہ خلش جو ایک افریقی کرکٹر نے پائی، وہ کون سا نصاب پڑھنے سے آتی ہے؟ کیا ہمارا کوئی ادارہ کبھی کسی شخص کے ضمیر میں خلش پیدا کر سکے گا کہ وہ انصاف کی خاطر اپنی ساری جھوٹی انا کو پاؤں کے نیچے رکھ کر سچ بول دے؟