Pakistan Aur Bharat Mein Khawateen, Aik Jaise Masail, Aik Jaisa Istehsal
پاکستان اور بھارت میں خواتین، ایک جیسے مسائل، ایک جیسا استحصال

پچھلی دہائی میں خواتین پر ہونے والے مظالم اور ان کی زندگیوں میں در آنے والی تلخ حقیقتوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ عالمی وعدے اور معاہدے کاغذی طور پر جتنے خوبصورت نظر آتے ہیں، حقیقت میں ان کی پاسداری کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ خاص طور پر پاکستان اور بھارت میں خواتین آج بھی تشدد، استحصال اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
پاکستان میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی جیسے جرائم میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کئی مثالیں ہمارے سامنے میں ہیں جس میں چیدہ واقعات سے معاملے کی سنگینی واضح ہوتی ہے، مثال کے طور پر اکتوبر 2024 میں ایک شخص نے اپنی ماں سمیت چار خواتین کو قتل کر دیا، دسمبر میں پاکپتن کی آمنہ بی بی کو اس کے بھائی نے موت کے گھاٹ اتار دیا، نومبر میں فیصل آباد میں ایک خاتون کو شوہر اور بھائی نے بے دردی سے قتل کیا اور ستمبر میں کراچی میں پسند کی شادی کرنے پر 19 سالہ سائرہ کو بھائی نے مار ڈالا۔ کیا یہ کسی ایک دن، کسی ایک لمحے کا ظلم ہے؟ نہیں، یہ وہ روزانہ کے دکھ ہیں جو ہمارے معاشرے میں خواتین سہتی ہیں۔
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں خواتین کو جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر دبایا جاتا ہے۔ دیہی اور قبائلی علاقوں میں انہیں اب بھی خاندانی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ وہی ملک ہے جس کے بانی محمد علی جناح نے کہا تھا کہ "کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ ہوں "؟ مگر یہاں تو انہیں زندہ رہنے کی بھی آزادی نہیں۔ عورت پر ہونے والے ظلم کو یا تو تقدیر مان لیا جاتا ہے یا پھر خاندانی عزت کے ساتھ جوڑ کر خاموشی کی چادر میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔
یہاں قانون بھی خاموش ہے اور سماج بھی۔ عورت پر ہونے والا ظلم رپورٹ ہوتا ہے، بحث کا حصہ بھی بنتا ہے، مگر پھر ایک اور واقعہ اسے پچھلے صفحے پر دھکیل دیتا ہے۔ ہم آگے بڑھتے ہیں مگر پیچھے رہ جانے والے وہی پرانے سوالات ہیں: عورت کے تحفظ کی ضمانت کون دے گا؟ کب تک عزت اور غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہیں گے؟ کب تک خواتین اپنے ہی گھروں میں عدم تحفظ کا شکار رہیں گی؟
بھارت میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ 2025 میں بھارت میں سب سے زیادہ جرائم اتر پردیش میں رپورٹ ہوئے، راجستھان میں جہیز کے نام پر قتل اور عصمت دری کے واقعات بڑھے، مدھیہ پردیش میں کم عمری کی شادیوں کا سلسلہ جاری رہا اور ہریانہ میں پدرشاہی نظام نے خواتین کی زندگی اجیرن کر دی۔
2024 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، بھارت میں 2022 میں 4.45 لاکھ سے زیادہ مقدمات درج ہوئے، یعنی ہر گھنٹے 51 خواتین کسی نہ کسی ظلم کا نشانہ بنیں۔ بھارت میں خواتین کو صرف جسمانی تشدد نہیں سہنا پڑتا بلکہ انہیں ملازمتوں میں بھی تفریق کا سامنا ہے۔ آکسفیم انڈیا کے مطابق، خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے اور عالمی اقتصادی فورم کے مطابق، بھارت صنفی مساوات میں 140ویں نمبر پر ہے۔
یہ دونوں ممالک خواتین کے حقوق کے تحفظ میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل اور بھارت میں جہیز کے نام پر قتل، یہ سب ایک ہی پدرشاہی نظام کی مختلف شکلیں ہیں جو خواتین کو محکوم رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین صرف مظلوم نہیں ہیں، کچھ خواتین انتہا پسند تحریکوں میں بھی شامل ہوتی ہیں۔ وہ شدت پسندی کو اختیار کرتی ہیں، یا تو سماج میں اپنی جگہ بنانے کے لیے، یا پھر پدرشاہی نظام کے خلاف بغاوت کے طور پر۔
پاکستان میں کیے گئے ایک مطالعے کے مطابق، بعض خواتین انتہا پسند نظریات کو اپنانے کے بعد خاندان اور کمیونٹی میں اپنی حیثیت مضبوط کرتی ہیں۔ لیکن جہاں کچھ خواتین شدت پسندی کی طرف جاتی ہیں، وہیں کئی اس کے خلاف بھی کھڑی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے گھروں، کمیونٹی اور سیکیورٹی اداروں کے ذریعے مزاحمت کرتی ہیں۔
یہ تصویر ہمیں کیا بتاتی ہے؟ یہ کہ خواتین کے خلاف تشدد اور انتہا پسندی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں ایک وسیع تر اور عملی نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔ اگر 2025 تک موثر قانون سازی اور حقیقی اقدامات نہ کیے گئے تو خواتین کی حالت مزید بگڑ جائے گی۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب صنفی مساوات کا خواب ہمیشہ کے لیے بکھر جائے گا۔
یہ سب کچھ کہنے اور سننے میں شاید معمول کی بات لگے، لیکن اس حقیقت سے کوئی نظریں نہیں چرا سکتا کہ ہم آج بھی ایک ایسے دور میں کھڑے ہیں جہاں عورت اپنے حق کے لیے سوال کرے تو بغاوت، بولے تو بدتمیزی اور اپنا راستہ خود چنے تو بے راہ روی کہلاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک؟ کب تک عورت کو خاموش رہنے کا سبق دیا جاتا رہے گا؟ کب تک غیرت اور عزت کے نام پر اس کا گلا گھونٹا جاتا رہے گا؟ یہ جنگ عورت کی بقا کی جنگ ہے اور جب تک اس کے حق میں مضبوط فیصلے نہیں کیے جائیں گے، یہ معاشرہ ترقی کی دوڑ میں ہمیشہ پیچھے ہی رہے گا۔