Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Aaghar Nadeem Sahar
  3. Gaun Ki Eid

Gaun Ki Eid

گاؤں کی عید

میانوال رانجھا کی علمی روایت بہت مضبوط ہے، ملک بھر سے علما کی ایک کثیر تعداد حصولِ علم کے لیے اس گائوں کا رخ کرتی رہی اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، اس علمی روایت کو مستحکم بنانے میں استاد العلماء حضرت مولانا غلام رسولؒ (انھے شریف والے بابا جی) اور مولانا ولی اللہؒ نے بنیادی کردار ادا کیا، یہ مدرسہ آج بھی سراج الہدیٰ کے نام سے موجود ہے جہاں دینی و دنیوی علوم کی ترسیل جاری ہے۔

میں اگرچہ ایک دہائی قبل اس گائوں سے لاہور منتقل ہوگیا تھا مگر اس روشن اور بابرکت سر زمین سے کبھی نکل نہیں پایا۔ روحانی طور پر آج بھی اپنی جڑوں سے ناطہ برقرار ہے، یہی وجہ ہے کہ سال میں دو مرتبہ عیدین کے اجتماع میں اس سر زمینِ علم پر حاضر ہوتا ہوں، اپنے پیاروں سے ملتا ہوں، اس علمی روایت سے اپنی جڑت کو مضبوط بناتا ہوں اور واپس چلا آتا ہوں۔ عیدین سے یاد آیا، یہاں ایک ہی مرکزی عید گاہ ہے، تیس ہزار کی آبادی والے اس قصبے میں اگرچہ بیس سے زائد مساجد ہیں جو ایک ہی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں مگر عیدین کے لیے یہ اہلیانِ علاقہ کا اجتماعی فیصلہ ہے کہ ہم مرکزی عید گاہ میں ہی جمع ہوں گے، آپ انداز کریں کیسا منظر ہوتا ہے جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایک ہی مرکز کی جانب گامزن ہوتے ہیں، عید کی تکبریں پڑھتے ہیں اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

ایک طویل عرصہ تک عیدین کا خطبہ استاد العلماء حضرت مولانا قاری محمد اشرف دیتے تھے، ان کے وصال کے بعد یہ ذمہ داری مولانا حافظ عنایت اللہ صاحب نے ادا کی۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وہاں کسی کو بھی اس بات سے اختلاف نہیں ہوتا ہے کہ عید کا خطبہ ہمارے محلے کے خطیب سے کیوں نہیں دلوایا گیا، تمام مساجد کی کمیٹیاں مرکزی عید گاہ کمیٹی کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتی ہیں۔

سال میں دو مرتبہ جب مرکزی عید گاہ کا رخ کرتا ہوں تو ایک طرح سے شہر بھر کے دوستوں، بزرگوں اور اہلِ علم سے ملاقات ہو جاتی ہے، وہ لوگ بھی درشن کروا دیتے ہیں، جن سے ملنا عام دنوں میں ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ میں عیدین پر کہیں بھی ہوں، اپنے گائوں پہنچ جاتا ہوں۔ والدہ کی قدم بوسی، اپنے عزیزوں سے ملاقاتیں، دوستوں سے گپ شپ کی محافل اور علمی و ادبی شخصیات سے ملاقات کا سلسلہ تین دن تک جاری رہتا ہے۔ عید کے موقع پر شہرِ خموشاں کا بھی رخ کرتا ہوں جہاں منوں مٹی کے نیچے موجود نگینوں سے یادیں تازہ کرتا ہوں "خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں"۔ مرزا غالب نے کہا خوب کہا تھا:

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاقِ نسیاں ہوگئیں

ہر سال جب عید الفطر پر گائوں جاتا ہوں تو کئی لوگ کم ہو چکے ہوتے ہیں، وہ لوگ جو گزشتہ عید پر گلے ملتے ہیں، اگلی عید پر نہیں ہوتے، یہ لمحہ بھی کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے رفتہ رفتہ وہ چراغ بجھ رہے ہوں، جن سے ایک دنیا نے روشنی پائی ہو، یہاں بھی ایسی ہی صورت ہے کہ ہم خود کو فسانہ ہوتے دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے۔

ہر سال عید کے دن والد مرحوم علی الصبح ہی جاگ جایا کرتے، وہ حسبِ معمول جلدی ہی جاگا کرتے تھے کیوں کہ تہجد ان کا معمول تھا، عید کے دن تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ رمضان کے روزوں کے بعد جیسے صلہ ملنے کی خوشی ہوتی ہے۔ وہ ایک صاحبِ علم اور صاحبِ حلم انسان تھے، بارعب اور گرجدار آواز رکھنے والے، دوستوں اور عزیزوں کی محافل میں ایک جداگانہ شناخت رکھتے تھے، پنچایت میں سر پنچ کا کردار ادا کرتے، لوگوں سے رہ و رسم بنانے اور نبھانے میں بھی ماہر تھے، ایک زمانہ ان کا معترف تھا، اس وجہ سے بھی کہ وہ انتہائی سخت گیر تھے، اصولوں کے اور زبان کے پکے، کھرے اور شفاف۔

عید کے دن وہ سب کو نہ صرف جگاتے بلکہ تلقین کیا کرتے کہ مرد حضرات جلدی عید گاہ پہنچیں، خواتین گھروں میں عبادت کریں اور خدا کا شکر ادا کریں کہ پورا رمضان نصیب ہوا۔ ہر عید پرشہرِ خموشاں میں ان سے ملاقات کو بھی جاتا ہوں، ان کے بعد عیدیں واقعی سنسان ہیں، وہ دن اور وقت کبھی واپس نہیں آئے گا۔ عیدیں اور شبراتیں تو آتی رہیں گی، وہ نہیں آئیں گے جنھیں ہم خود شہرِ خموشاں چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں۔

عید الفطر پر صدقہ و فطرانہ کا خاص اہتمام ہوتا ہے، عید کی نماز سے پہلے یا کم از کم ماہِ رمضان میں یہ فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے، یہی موقع ہوتا ہے ایسے لوگوں کو یاد کرنے کا جو معاملات زندگی بہتر نہیں چلا سکتے، وہ لوگ جو زندگی میں متوسط حالات سے گزر رہے ہیں، ان کا ساتھ دیں، انھیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں، انھیں بھی انسان سمجھیں۔

ہمارے ارد گرد کتنے ہی ایسے خاندان ہوں گے جن کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، ہم رمضان میں ان کے لیے راشن کا انتظام کرتے ہیں جو یقیناََ احسن قدم ہے مگر اس کا کوئی مستقل حل نکالنا ہوگا، ہم جنھیں صرف رمضان میں یاد کرتے ہیں، انھیں سال کے باقی دنوں میں بھی یاد رکھنا ہوگا تاکہ وہ اپنے معاملات زندگی کو انتہائی خوش اسلوبی سے چلا سکیں، ایک ماہ میں تو سب یاد کرتے ہیں، آپ اس مرحلے کو آگے بڑھائیں تاکہ ہم سب ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکیں جس سے امن اور بھائی چارے کی خوشبو آتی ہو، یہ خوشبو ایک ایسا عطر ہے جس سے ہمارا وجود جگمگاتا رہے گا۔

Check Also

Theft

By Mubashir Ali Zaidi