Tuesday, 01 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qadir Khan Yousafzai
  4. Mayor Karachi Shuturmurg Kha Kar Governor Sindh Se Sulah Kar Lein

Mayor Karachi Shuturmurg Kha Kar Governor Sindh Se Sulah Kar Lein

میئر کراچی شتر مرغ کھا کر گورنر سندھ سے صلح کرلیں

کراچی، ایک شہر جہاں سیاست اور عوامی خواہشات ہمیشہ پیچیدہ اور مخفی ہوتے ہیں، وہاں کی سیاست میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ نئی تبدیلیاں اور کشمکش دیکھنے کو ملتی رہتی ہے اور جب بات کراچی کے میئر اور گورنر سندھ کی ہو، تو معاملہ اور بھی دلچسپ ہو جاتا ہے۔ ایک طرف میئر کراچی، جنہیں ہم ان کی عوامی تصویر سے جانتے ہیں، اپنے اختیارات کی جنگ لڑ رہے ہیں، تو دوسری طرف گورنر سندھ کامران ٹیسوری، جو ابھی تک عوامی پذیرائی کے حوالے سے کمزور نہ سہی، ایک منفرد سیاستدان کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔

حال ہی میں میئر کراچی نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے حوالے سے کچھ دلچسپ باتیں کیں۔ انھوں نے یہ کہا کہ "میں گورنر صاحب کا وکیل رہا ہوں، میں بات کرتا ہوں، گورنر صاحب ناراض ہو جاتے ہیں، وہ میرے بڑے ہیں" اور پھر ایک لمحے کو سوچتے ہوئے، وہ بتاتے ہیں کہ "جو شخص مجھے کہہ رہا تھا تمہیں اختیارات دلاؤں گا، وہ خود اختیارات مانگ رہا تھا"۔ ایک لمحے کے لیے تو دل میں یہ سوال آتا ہے، کہ یہ سب چل کیا رہا ہے؟ کیا کراچی کے عوام صرف ایک سیاستدان کے درمیان کی جنگ کا حصہ بننے جارہے ہیں؟ اور اس میں ان کا کیا فائدہ ہے؟

میئر کراچی کی اس بات میں ایک شکوہ بھی چھپا ہوا ہے کہ "اگر آپ کسی کے کہنے پر بیان بازی کریں گے تو مسائل ہوتے ہیں"۔ یہ جملہ کراچی کے سیاستدانوں کی اصل حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ سیاستدانوں کی باہمی تعلقات میں اتنی پیچیدگیاں ہیں کہ ان کا اثر عوام تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میئر کراچی کی باتوں سے یہ بھی لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گورنر سندھ کے سامنے ایک "متعلقہ" شخصیت کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ گورنر صاحب کو ان کے بارے میں مزید حساس ہونا چاہیے۔

اِسی دوران میئر کراچی نے گورنر سندھ کو ایک انوکھا مشورہ بھی دیا اور وہ تھا کہ "گورنر کو کہوں گا کہ کون ان کو اکسا کرکے ایسے بیانات دلواتا ہے"۔ اب، یہ بات صرف میئر کی طرف سے ایک اندر کی سیاست پر تبصرہ نہیں، بلکہ یہ عوامی سطح پر ایک سوال بھی اٹھاتی ہے کہ کراچی کے عوام کا حق کس کی نظر میں اہمیت رکھتا ہے؟ کیا یہ سیاسی جملے، مفادات اور تعلقات عوام کی فلاح کے لیے ہیں یا صرف ذاتی مفادات کے لیے؟

اگر ہم اس تمام بحث کو گہرائی میں دیکھیں تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی جیسے شہر کے مسائل کا حل اس بات میں نہیں ہے کہ ایک سیاسی شخصیت دوسرے کی مدد کرے، بلکہ اصل حل عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ہے۔ کراچی کی عوام کو اس وقت گورنر سندھ اور میئر کراچی کی لڑائیوں سے زیادہ اہم ہے، کہ شہر کے حالات بہتر ہوں، سڑکوں کی حالت درست ہو، پینے کا صاف پانی ملے اور صحت و تعلیم کے شعبوں میں بنیادی سہولتیں فراہم ہوں۔ لیکن ان تمام اہم مسائل کے بجائے، سیاستدان آپس میں الزام تراشیوں میں مشغول ہیں۔

یاد رہے کہ کراچی ایک ایسا شہر ہے جس کی تاریخ اور ثقافت بے شمار رنگوں سے مزین ہے۔ یہاں کی عوام نے ہمیشہ ہر قسم کے حالات کا سامنا کیا ہے۔ انھیں سڑکوں پر آئے روز ہونے والی احتجاجوں، دھرنوں اور سیاسی بیانات کے بجائے حقیقی مسائل کا سامنا ہے۔ کراچی کے عوام نے ہمیشہ گورنر، میئر اور دوسرے سیاستدانوں سے یہ توقع رکھی ہے کہ وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے کام کریں گے، نہ کہ ان کی مشکلات کو مزید بڑھا دیں۔

اب آتے ہیں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی طرف، جو اس تمام کھیل میں ایک عجیب صورتحال میں ہیں۔ ایک طرف انھیں اپنی عوامی مقبولیت کا استراحت حاصل ہے اور دوسری طرف میئر کراچی ان پر مختلف الزامات لگا رہے ہیں۔ اگر ہم گورنر ٹیسوری کی عوامی پذیرائی کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی سیاست میں کچھ خاص بات ہے۔ عوام میں ایک "کامران ٹیسوری" کے چہرے کے ساتھ جو مسکراہٹ ہے، وہ ان کے سیاسی جادو کا حصہ بن چکا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میئر کراچی نے یہ کہا کہ "گورنر کو امید نہیں تھی کہ میں خط لکھ دوں گا"، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گورنر کی پوزیشن سے انھیں عوامی حمایت کی کمی کا اندازہ ہو چکا ہے۔

کامران ٹیسوری کی سیاست کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ عوامی سطح پر اپنے بیانات سے اس بات کو اجاگر کیا کہ وہ کراچی کے مسائل سے آگاہ ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، اس بات کی حقیقت کیا ہے؟ کیا ان کے اقدامات صرف عوام کو دکھانے کے لیے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی حقیقی مفاد چھپا ہے؟

یقیناً، کراچی میں اس وقت سیاسی منظرنامہ اتنا پیچیدہ ہو چکا ہے کہ عوام کو یہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر ان کا حقیقی مسئلہ کیا ہے۔ ایک طرف میئر کراچی کے دعوے ہیں اور دوسری طرف گورنر سندھ کی طرف سے مختلف بیانات اور عوام اس تمام کشمکش کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیاسی کھیل کراچی کے عوام کے مفاد میں چل رہے ہیں؟ یا پھر یہ سب کچھ ایک مخصوص سیاسی فائدے کے لیے کیا جا رہا ہے؟

حال ہی میں میئر کراچی نے اپنے ایک بیان میں شتر مرغ کا ذکر کیا، جو کہ ایک انتہائی دلچسپ حوالہ تھا۔ "شتر مرغ ریت میں سر چھپاتا ہے اور مسائل کو نظر انداز کرتا ہے، بالکل اسی طرح کچھ لوگ کراچی کے مسائل سے منہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں"۔ یہ بات ایک طنزیہ انداز میں کی گئی، لیکن کیا ان کا اشارہ مبینہ طور پرجے ڈی سی کے رہنما طفر عباس کی طرف تھا؟ اگرچہ میئر کراچی نے واضح طور پر کسی کا نام نہیں لیا، مگر ان کے بیان میں ایک تیکھا اشارہ دکھائی دیتا ہے، جو شاید کراچی کے مسائل سے نمٹنے میں تاخیر یا عدم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔

ظفر عباس ایک سماجی رہنما کے طور پر کراچی کی سماجی سیاست میں ابھر کر سامنے آئے ہیں، کراچی کے متعدد مسائل میں فعال طور پر مداخلت کرتے رہے ہیں۔ میئر کراچی کا شتر مرغ والا بیان ایک کھلا اشارہ ہو سکتا ہے کہ گورنر کی حکمت عملیوں پر تنقید کر رہے ہیں، میئر کا اصل مسائل سے صرف آنکھیں چراندے ہیں۔ کراچی کا مسئلہ صرف اور صرف عوامی فلاح کے حوالے سے نہیں بلکہ اس شہر کی سیاست میں پوشیدہ ہے۔ سیاستدان آپس میں لڑتے ہیں، بیانات دیتے ہیں، مگر عوام کی فلاح کے لیے کبھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو کراچی کے عوام کے دلوں میں ایک خلا پیدا کرتا ہے۔ میئر کراچی اور گورنر سندھ کی اس لڑائی کے درمیان کراچی کی عوام کے مسائل کہیں گم ہو گئے ہیں۔

کیا کراچی کی عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں کی لڑائیوں کا تماشا دیکھنا پڑے گا؟ کیا ہم اپنی حقیقت کو اس حد تک نظر انداز کرتے جائیں گے کہ آخرکار شہر کی حالت مزید بگڑ جائے؟ میئر کراچی اور گورنر سندھ کے اس جنگی بیانیے میں عوامی مفاد کہاں کھڑا ہے؟ اس سوال کا جواب شاید ہمیں خود ہی تلاش کرنا پڑے گا۔ آخر میں، اگر ہمیں کراچی کے مسائل کا حل چاہیے، تو وہ صرف اور صرف سیاستدانوں کے بیانات کے ذریعے نہیں آئے گا۔ ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور وہ صرف عوامی مفاد میں کیے جانے چاہییں، نہ کہ کسی سیاستدان کی ذاتی جنگ کی نظر میں۔

Check Also

Kharmang Ke Aasar e Qadeema (2)

By Mumtaz Hussain