Kya Hum Azad Hain?
کیا ہم آزاد ہیں؟
نومبر کی ایک گمنام رات، اپنے اگلے کالم کے موضوع پر گہری سوچ وچار کرتے اچانک میرا دھیان بھٹک کر پاس ہی پڑے کافی کے کپ پر جا پڑا۔ میز پر رکھے گرم کافی کے کپ پر سے اٹھتا سفیدی مائل دھواں آزاد فضا میں گم ہو گیا مگر میرے من میں ایک سوال چھوڑ گیا۔ کیا اس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہم بھی آزاد ہیں؟ ہمارے ہاں تاریخ اور دیگر کُتب کے مطابق ہم ایک آزاد قوم ہیں۔
کافی سوچ بچار کرنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ کِتاب اور تاریخ کی رو سے ہم آزاد ہیں مگر حقیقت میں ہم آج بھی قید ہیں۔ کیا صرف ایک آزاد ملک کا شہری ہونے سے ہم آزاد ہو جاتے ہیں؟ کہنے کو تو ہمیں آزادی حاصل کیے 75 برس گزر گئے لیکن ذہنی و ثقافتی طور پر ہم ابھی بھی اسیری زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم اَن دیکھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہ زنجیریں ہیں جن کو توڑنے کی کوشش میں ہمیں پتا نہیں کتنے برس لگ جائیں۔
اس 75 سالہ آزادی میں سے 30 سال تک تو ہم پر فوج نے حکومت کی پھر بھی ہم فخر سے سینا تان کر اپنے آپ کو ایک جمہوری ملک کہتے ہیں۔ تاریخ کی کُتب کے مطابق پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جس کی بنیاد ایک فلسفئہ حیات پر رکھی گئی مگر افسوس در افسوس، ان 75 برسوں میں ہم بحیثیت ایک قوم اس فلسفہ حیات کو نہ جان سکے۔
افسوس آج بھی ہمارے ملک کے فیصلے بیرونِ ملک ہوتے ہیں۔ ہمارے نوجوان آج بھی مغربی ممالک کو آئیڈیلائز کرتے ہیں۔ آج بھی ہم اردو زبان بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ ہماری عدلیہ آج بھی آزاد نہیں ہے۔ ہم آج بھی حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم آج بھی آئین اور قانون کی ترامیم پر جھگڑتے ہیں۔ ہمارے ملک میں آج بھی صحافت اور صحافی اپنے آئینی حقوق سے محروم ہے۔
ہمارے ملک کے باشندے آج تک سندھی، بلوچی، پنجابی اور پختون کی لڑائی میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ہمارے نوجوان آج بھی ترقی کے لیے بیرون ملک جانے کی بات کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا ہم ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں اور درست سمت میں گامزن ہیں؟ مجھے نہیں لگتا۔ ہم نے اپنے آپ کو ابھی تک ایک قوم کی سانچے میں ڈھالا ہی نہیں۔ ہم تو عوام کا ایک مجمع ہیں جو بغیر کسی مقصد ایک انجام راہ پر گامزن ہے۔
اگر ہم حقیقت میں آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں انفرادی طور پر تبدیل ہونا ہو گا۔ ہمیں انفرادی قوت کو بروئے کار لانا ہو گا۔ ہمیں تہذیب و تمدن اور ایمانداری کو اپنا شیوا بنانا ہو گا۔ ہم بامقصد نظریہ کا لبادہ اوڑھنا ہو گا۔ اگر ہم دنیا بھر کے ممالک سے عزت چاہتے ہیں تو ہمیں صحیح سمت پر چلنا ہو گا۔ ہمیں تعلیم کو ترجیح دینے اور اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہو گی۔
ہمیں کرپشن سے لڑنے اور اپنے لوگوں کے لیے کرپشن فری پاکستان کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔ ہم ظلم کا نظام ختم کر کے آئیں اور قانون کی بالادستی کا ڈنکا بجانا ہو گا تبھی ہم حقیقی آزادی سے روشناس ہو سکیں گے بصورتِ دیگر ہماری آنے والی نسلیں بھی غلامی کی اِن اَن دیکھی زنجیروں میں جکڑی رہیں گی۔