Wo Phir Chali Gayi
وہ پھر چلی گئی

پورے دو ماہ بعد وہ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ میں نے بے تابی سے اسے ہاتھوں میں تھام کے یوں بھینچ لیا جیسے اب کبھی کہیں بھی جانے نہیں دوں گا۔ لفظ خاموش ہو گئے تھے لیکن دھڑکن میرا حال بیان کر رہی تھی۔
اس سے ملنے کی خوشی، دو ماہ کی جدائی کا دکھ، اس کی آمد کا شکریہ ادا کرنے کی تمنا، جدائی کا گلہ کرنے کا حوصلہ۔۔ میں متضاد جذبات کی بارش میں بھیگتا رہا۔ ضبط کا بند اشکوں کے سیلاب سے لڑتا رہا۔
اس کیفیت میں کتنے ہی لمحے گزر گئے، میں بس اسے تکتا رہا اور جب بولا تو بمشکل اتنا کہہ پایا: "اتنی دیر لگا دی آنے میں۔ جب وعدہ ہوا تھا کہ تم ہر ماہ مجھے ملا کرو گی، تو یہ وعدہ خلافی کیوں؟" جملے کا آخری حصہ کہتے کہتے میں نے چیخنے کی کوشش کی تھی لیکن جذبات کی شدت سے آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی۔
وہ میرے اندر کی ٹھوٹ پھوٹ دیکھ رہی تھی، بے چارگی سے بولی: "میں اپنی مرضی سے تھوڑی رکتی ہوں۔۔ جن کے ہاں تم نوکری کرتے ہو، وہی مجھے کئی کئی مہینے تک روکے رکھتے ہیں۔ ہمارا ملن نہیں ہونے دیتے"۔
اس کی بات سنتے ہی میرے ضبط کا بند ٹوٹ گیا۔ آنکھوں میں رکے سیلاب کو بہنے کا راستہ مل گیا۔
لیکن ساتھ ہی ایک اور عجیب بات ہوئی۔ آنسو بہنے سے دل کا بوجھ بھی کم ہوا اور امید کی سر زمین آباد ہونے لگی، مرجھائے خواب پھر سے سانسیں لینے لگے، آنکھوں میں تمناؤں کے چراغ جلنے لگے، سہانے سپنے جو دیکھے تھے، ان کے سچ ہونے کا یقین ہونے لگا۔ میں اس کے ساتھ روز و شب بتانے کے منصوبے بنانے لگا۔
اور پھر، خوشی کے ان لمحوں میں خدشات کا ایک کڑوا سچ بھی میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔
ابھی جی بھر کر اسے ہاتھوں میں تھاما بھی نہ تھا کہ یاد آیا، اس سے جدائی کے دن کاٹنے کے لیے میں کس کس کا احسان مند ہوا تھا۔ جھکی آنکھوں سے کن کن کے سامنے وعدے کیے تھے کہ وہ آئے گی تو تمام حساب برابر کر دوں گا۔
اور پھر میں نے سب کا حساب برابر کر دیا۔
وہ بے یقینی سے مجھے دیکھتی رہی، میں نظریں چراتا رہا اور اپنی آنکھوں کے سامنے اسے اپنی گرفت سے نکلتے دیکھتا رہا۔
کچھ ہی دیر میں وہ جا چکی تھی۔
میری تنخواہ۔۔

