Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. Siddique Trade Center, Gulberg Lahore Ki Purani Shan

Siddique Trade Center, Gulberg Lahore Ki Purani Shan

صدیق ٹریڈ سینٹر، گلبرگ لاہور کی پرانی شان

ایک زمانہ تھا لاہور کا صدیق ٹریڈ سینٹر شہر کی سب سے پر شکوہ عمارت ہوا کرتی تھی۔ یہ میں بات کر رہا ہوں سن 2003 کی۔ اس وقت یہ عمارت اپنے مخفف "ایس ٹی سی" کے نام سے جانی جاتی تھی۔ جو کوئی کسی کام سے ایس ٹی سی جاتا، وہ اترا اترا کر بتایا کرتا تھا۔

میں ان دنوں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ وہاں ایک عمارت "اسٹوڈنٹ ٹیچر سینٹر" کا مخفف بھی ایس ٹی سی ہی تھا۔ جب کہتا کہ ایس ٹی سی جا رہا ہوں تو دل کے کسی گوشے میں یہ خواہش ضرور ہوتی کہ سننے والا سمجھے میں صدیق ٹریڈ سینٹر جا رہا ہوں۔ اسی طرح پروفیسرز کینٹین جانے والے بھی بتاتے کہ وہ کھانا کھانے "پی سی" جا رہے ہیں۔

یوں، مضافات سے آئے مجھ جیسے شخص کے لیے تو صدیق ٹریڈ سینٹر ایک اسٹیٹس سمبل بھی تھا۔ وہاں دکانوں کے ساتھ ساتھ دفاتر بھی تھے۔ مشہور تھا کہ یہاں بجلی کی ادائیگی پیشگی کرنا ہوتی ہے۔ جس دکان/دفتر نے جتنا بل ادا کیا، اتنی ہی بجلی ملے گی اور پھر خود کار طور پر منقطع ہو جائے گی۔ جدید، ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہاں ایسا انتظام ہوتا ہے۔ جب معلوم ہوا کہ یہی نظام صدیق ٹریڈ سینٹر میں بھی ہے تو یہ عمارت اور بھی منفرد لگنے لگی۔

لاہور کا مرکزی علاقہ ہے گلبرگ۔ گلبرگ کی مرکزی شاہ راہ جہاں جیل روڈ کو ہاتھ ڈالتی ہے، اسی سنگم پر صدیق ٹریڈ سینٹر ہے۔ جس زمانے کا ذکر ہے، اس وقت گلبرگ کی پوری مرکزی شاہ راہ پر شاید تین ہی کثیر المنزلہ عمارتیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک حفیظ سینٹر، دوسری pace اور تیسری ایس ٹی سی۔

آنے والے برسوں میں میڈیا پروڈکشن سے وابستگی ہوئی تو لاہور کو اونچائی سے فلمانے کے لیے بھی ایس ٹی سی کی چھت ہی موزوں پائی۔ تب ڈرون کیمرے بھی نہیں ہوا کرتے تھے اور بلندی سے کوئی منظر فلمانے کے لیے بلند عمارتوں کی چھت ہی استعمال کی جاتی تھی۔

مطلب یہ کہ لاہور کے صدیق ٹریڈ سینٹر کا خاصا سین ہوا کرتا تھا۔ پیس (pace) اگر متوسط طبقے کا شاپنگ مال تھا، تو صدیق ٹریڈ سینٹر کی دکانوں سے خریداری کرنے والے امراء ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ بات وہ بندہ کر رہا ہے جو مہینے کے لگ بھگ 2700 روپے کماتا تھا۔ مطلب جو میں نے pace اور ایس ٹی سی کو متوسط طبقے اور امراء میں تقسیم کیا تو میرے نقطہ نظر سے 10 ہزار روپے ماہانہ کمانے والا بھی اچھا خاصا امیر ہی ہوتا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب میرے لیے 500 روپے کا کھانا عیاشی، کے زمرے میں آتا تھا۔ اس رقم کا بل آ جاتا تو احباب میں یہ جھگڑا ہوتا ہی نہیں تھا "پیسے میں دوں گا"۔ سب یار اپنی اپنی جیبوں میں موجود رقم ملا کر ویٹر کو ادائیگی کرتے تھے۔

یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہو سکتا ہے صدیق ٹریڈ سینٹر سے میری مرعوبیت میرے معاشی حالات کا نتیجہ ہو اور وہاں سے خریداری کرنا elitism نہ ہو، لیکن بہرحال یہ عمارت شہر کی پہچان ضرور تھی۔

پھر وقت گزرا تو گلبرگ کی مرکزی شاہ راہ پر کثیر المنزلہ عمارات کا ایک سیلاب سا آتا گیا۔ آج آپ سینٹر پوائنٹ سے جیل روڈ کی طرف جاتے ہیں تو ایک یا دو منزلہ عمارت خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ہر جگہ ہی اونچی اونچی عمارتیں بن چکی ہیں، یا بن رہی ہیں۔ یعنی گزرتے وقت کے ساتھ ایس ٹی سی کی انفرادیت مدہم پڑتی گئی۔ اس روز جیل روڈ کی طرف مڑتے ہوئے یوں ہی نگاہ اٹھی تو نئی عمارات کی چکا چوند میں صدیق ٹریڈ سینٹر ماند سا نظر آیا۔

یادوں کا ریلا بہنے لگا۔ سوچا، فرد ہو یا عمارت، ایک وقت میں کیسے ہی شان دار رہے ہوں، زمانے کی دھول سب کو دھندلا دیتی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan