Sahafi Ka Kaam Khabar Nigari Hai, Drama Nigari Nahi
صحافی کا کام "خبر نگاری" ہے، ڈرامہ نگاری نہیں

روزنامہ جنگ پڑھنا بطور صحافی میری ضرورت تو تھی ہی، عادت بھی تھی اور یہ عادت اس وقت سے تھی جب ابھی اس شعبے میں آنے کا سوچا بھی نہ تھا۔ گھر میں اخبار باقاعدگی سے تو نہیں آتا تھا، لیکن کوئی ایک اردو اخبار آتا تو وہ روزنامہ جنگ ہی ہوتا۔
پھر یونیورسٹی میں داخلہ ہوا، اساتذہ خبر نویسی کے اصول و ضوابط سمجھاتے، تو روزنامہ جنگ کی خبریں بطور مثال پیش کرتے۔ سکھایا جاتا کہ یک طرفہ خبر نہیں دینی، جس کے بارے میں خبر دی گئی ہو اس کا موقف ضرور شامل کرنا ہے، ساتھ ہی روزنامہ جنگ میں چھپی خبریں دکھائی جاتیں۔۔ کہ دیکھیے، یہ ہوتی ہے صحافت۔
اس پیشے سے عملی طور پر وابستہ ہوا تو بھی ایک زمانے تک جنگ اخبار اور جیو ٹیلے وژن چینل کو معیار بنائے رکھا۔ کوئی خبر جنگ پر چھپتی یا جیو پر نشر ہوتی تو ہی معتبر معلوم ہوتی۔
لیکن پھر روزنامہ جنگ پر چھپنے والی خبروں میں وہی صحافتی اصول اور اخلاقیات پامال ہوتے دیکھیں، جو سیکھی ہی اس اخبار سے تھیں۔ برسوں تک جس ادارے کو صحافت کا معیار مانتا رہا، وہی انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے لگا۔
26 جولائی 2025 کی شہ سرخی کے سامنے چھپی یہ خبر دیکھیے۔ خبر نگار محمد صالح ظافر لکھتے ہیں، عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے بچوں قاسم اور سلیمان کو امریکا سے لندن واپس بلا لیا۔ حالاں کہ ان کے بارے میں خبریں دی گئی تھیں کہ وہ پاکستان جائیں گے اور اپنے والد کی رہائی کے لیے تحریک چلائیں گے۔ صالح ظاہر کو یہ "خبر" جس ذریعے نے دی ہے، اسے انہوں نے "حد درجہ لائق اعتماد" لکھا ہے۔
وہ ذریعہ کہتا ہے کہ تحریک انصاف کے جن لوگوں کی جمائما گولڈ اسمتھ سے شناسائی ہے، انہوں نے جمائما گولڈ اسمتھ کو ایک پیغام بھیجا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ قاسم اور سلیمان اگر پاکستان آئے تو انہیں پاکستانی انتظامیہ اور سلامتی کے اداروں سے اتنا خطرہ نہیں ہوگا، جتنا خطرہ انہیں عمران خان کی بہنوں سے ہوگا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ عمران خان کی بہنوں نے کبھی جمائما گولڈ اسمتھ کو اپنی بھاوج کے طور پر قبول نہیں کیا اور نہ ہی انہیں کبھی اس کے بچوں کے ساتھ لگاؤ ظاہر کرتے دیکھا گیا ہے۔
یہ خبر ہے؟ اسے صحافت کہا جائے یا کچرا چن کر افواہ بنانے کی مشق؟ نہ "حد درجہ لائق اعتماد" ذریعے کی کوئی شناخت، نہ جمائما کا موقف، نہ کسی بہن کی رائے۔۔ بس بیٹھے بٹھائے گھریلو معاملات پر یوں تہمت دھر دی گئی۔
ایسے خبر نگاروں کو چاہیے کہ ایسی خبریں گھڑنے کے بجائے ڈرامہ لکھا کریں اور ایسی خبریں چھاپنے والے اخبار افسانے چھاپیں تو زیادہ ٹھیک رہے گا۔

