Roznama Jang Mein Baligh Afrad Wale Lateefay
روزنامہ جنگ میں بالغ افراد والے لطیفے

کوئی ایسی ویسی چیز چھاپی جائے یا نشر کی جائے جو بچوں کے دیکھنے/پڑھنے کی نہ ہو تو اس کے ساتھ ایک تنبیہہ لکھ دی جاتی ہے، "صرف بالغ افراد ہی پڑھیں /دیکھیں"۔
روزنامہ جنگ میں عطاء الحق قاسمی صاحب ان دنوں کالم کے نام پر اپنی آپ بیتی لکھ رہے ہیں۔ یہ آپ بیتی دل چسپ ہے لیکن قاسمی صاحب کئی باتیں ایسی بھی لکھ جاتے ہیں جو سراسر فحش نہ بھی قرار دی جائیں تو بھی +18 ضرور ہوتی ہیں۔
6 مارچ 2025 کے کالم میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک سلیم اختر صاحب کی عیادت کرنے گئے تو ان سے کہا، "مجھے اس واحد خاتون کی باتیں بتاؤ جو شادی سے پہلے پشاور میں قیام کے دوران تمہیں اپنے دام میں لانے کی کوشش کرتی رہی تھی مگر جب تم اس کے دام میں آئے تو تم نے کئی بار اس کے عملی اظہار کی کوشش کی اسے اس پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر وہ ہر دفعہ ایسے موقع پر منہ تمہارے سامنے رکھنےکی بجائے کروٹ لے کر اپنا منہ دوسری طرف کر لیتی تھی۔ مگر تم اپنے پرانے خیالات کا اسیر ہونے کی وجہ سے اٹھ بیٹھتے، یہ قصہ بغیر سنسر کے پورے کا پورا سناؤ"۔
آپ ہی بتائیے، یہ واقعہ ہے اخبار میں لکھنے والا؟
10 جنوری 2025 کے کالم میں دعوت اسلامی کراچی والے بابا جی کے ایک فتوے کا ذکر کیا کہ ایک موٹر سائیکل پر دو مردوں کو آگے پیچھے نہیں بیٹھنا چاہیے کیوں کہ اس سے ذہن میں شیطانی خیالات آتے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ "یہ بات ایک ذاتی تجربے سے صحیح ثابت ہوئی۔ ایک مولانا نے از راہ کرم مجھے اپنے موٹر سائیکل پر لفٹ دی مگر میں نے پانچ منٹ بعد انہیں بریک لگانے کے لیے کہا اور اللہ سے توبہ کرنے کے لیے سیدھا ایک قریبی مسجد میں چلاگیا۔ سجدے سے پہلے واش روم اور وضو کی ضرورت بھی پوری کی"۔
یہ باتیں مزاحیہ تو شاید ہیں لیکن ان کا عمومی تاثر کراہت آمیز ہے۔ یہ بہرحال عطاء الحق قاسمی صاحب کا حق ہے کہ وہ جو مرضی لکھیں۔ ان کی آپ بیتی کتابی صورت میں شائع ہو تو صرف خریدنے والے ہی یہ باتیں پڑھیں گے، شاید ان سے لطف بھی اٹھا لیں، لیکن اخبار تو ہر کوئی پڑھتا ہے۔ کیا اس میں ایسی باتیں شائع ہونی چاہییں جو فحاشی کا رنگ لیے ہوں؟
اور شائع کرنی ہی ہیں تو ایسی تحریر کے ساتھ یہ تنبیہہ بھی لکھ دیجیے، "صرف بالغوں کے لیے"۔