Remote Ka Raz
ریموٹ کا راز

اس روز دفتر پہنچ کر ریموٹ کنٹرول سے ٹیلے وژن چالو کرنا چاہا لیکن اسکرین پر کوئی ہل چل نہ ہوئی۔ دوبارہ، پھر سہ بارہ بٹن دبایا، اسکرین صحافت کے مستقبل کی طرح تاریک ہی رہی۔ ارے! شاید ریموٹ کا بٹن ٹھیک نہیں دبایا، شاید بٹن دباتے ہوئے ریموٹ کا رخ درست زاویے پر نہ تھا اور احکامات ٹیلے وژن تک پہنچ ہی نہ پائے۔ کئی امکانات پر غور کیا، ریموٹ کا سرخ بٹن مزید کئی کئی بار دبایا، ریموٹ کا رخ ٹیلے وژن کی طرف رکھتے ہوئے کئی کئی زاویے بدلے۔ لیکن اسکرین ایسے خالی رہی جیسے کہ میرا بینک بیلنس۔
یقیناً ریموٹ کے سیل ختم ہو چکے ہوں گے۔ دفتر کے ساتھی سے گزارش کی کہ اسٹور روم جائیے اور وہاں سے نئے سیل لے آئیے۔ وہ گئے تو ناکام لوٹے۔ اسٹور روم میں بھی سیل ختم ہو چکے تھے۔ اپنے کام کے سلسلے میں ٹیلے وژن کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ اس کے بغیر زندگی بے رنگ سی لگنے لگی۔ دفتر کے سبھی ساتھیوں نے ٹیلے وژن کی کمی کو محسوس کیا۔ حالت قریب قریب وہ ہوگئی جو پانی کے بغیر مچھلی کی ہوتی ہے، یا تنخواہ کے بغیر ملازم کی ہوتی ہے۔
بالکل ساتھ کی نشست پر بیٹھنے والے رفیق کار زیادہ ہی بے کل تھے۔ مضطرب ہو کر انہوں نے تو ریموٹ کنٹرول کو دو چار دھپے بھی جڑ دیے۔ پاکستان کے اکثر ریموٹ کنٹرول پٹنے کے بعد ٹھیک کام کرنے لگتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ فارمولا بھی نہ چلا۔ پریشان ہو کر انہوں نے ریموٹ کنٹرول سے سیل کئی بار نکالے اور ڈالے، ٹیلے وژن پھر نہ چلا۔ سراسیمگی اس قدر بڑھی کہ سیل نکال کر دانتوں سے انہیں کاٹا بھی، کہ اگر کرنٹ کی کوئی رمق موجود ہے تو چبائے جانے سے بہہ نکلے اور ٹی وی روشن ہو جائے۔ مگر وہاں تیرگی ہی تیرگی تھی۔
ناکامی، مایوسی اور تھکاوٹ غالب آ گئے۔ ہم ٹیلے وژن بھول کر اپنے کام میں لگ گئے۔
اگلے روز دفتر آیا تو پھر تاریک اسکرین اور بے جان ریموٹ پر نظر پڑی۔ نہ جانے کسی امید میں، یا یوں ہی عادتاً ریموٹ کنٹرول اٹھایا اور بٹن دبا دیا۔ یہی سوچ رہا تھا کہ کل اس مشق سے کچھ حاصل نہ ہوا تھا تو آج کیا ہوگا؟ دفتر کے ساتھی کو نئے سیل لانے کی یاد دہانی کرانے ہی والا تھا کہ میرے بٹن دبانے سے ٹیلے وژن چل پڑا۔ حیرت ہوئی، سوچا کل ہمارے جانے کے بعد کسی نے نئے سیل ڈال دیے ہوں گے۔ لیکن غور کیا تو معلوم ہوا کہ کل ہم کسی اور کمپنی کے ریموٹ سے اپنا ٹی وی آن کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔