Meri Suzuki Ki Kahani
میری سوزوکی کہانی

ہوش سنبھالنے کے بعد جب کبھی سفر درپیش ہوتا اور بسوں کے دھکے کھانے پڑتے، تو دل میں خواہش زور پکڑتی کہ کاش اپنی ایک ذاتی گاڑی ہوتی۔ یہی خواہش ہمارے گھر کی عمومی گفتگو کا حصہ بھی تھی۔ بڑوں کی کچھ ایسی دھندلی دھندلی سی باتیں یادداشت کا حصہ ہیں جن میں یہ سوچا جا رہا ہے کہ کون سی گاڑی لی جا سکتی ہے، اس کے لیے کتنے پیسے موجود ہیں، کتنوں کا مزید بندوبست کرنا پڑے گا، یہ بندوبست کس طرح ہوگا اور کب تک ہوگا۔ کوئی چلی ہوئی (سیکنڈ ہینڈ) گاڑی خریدنے کا مشورہ دیتا، اس مشورے کے حق اور مخالفت میں دلائل بھی دیے جاتے۔ زیادہ نام سوزوکی مہران کا ہی سنا، کہ دستیاب معاشی وسائل میں کچھ اور بچت کی جاتی، کچھ اور انتظار کیا جاتا، تو ہم اس گاڑی کے مالک بن سکتے تھے۔
سال پہ سال گزرتے رہے، اپنی گاڑی خریدنے کی باتیں ہوتی رہیں، اس دوران میں خیالوں ہی خیالوں میں ایک گاڑی کا مالک بن بھی بیٹھا۔ چوں کہ تب تک کی گفتگو سنی ہی سوزوکی مہران کے بارے میں تھی، تو میری خیالی گاڑی بھی وہی تھی۔ کبھی میں اس پر بیٹھ کر پہاڑی علاقوں کی سیر کو جاتا، کبھی میدان مسخر کرتا، کبھی سمندر کنارے پہنچ جاتا۔
پھر ایک روز سنا کہ سوزوکی مہران خریدنے کے لیے درکار پیسے جمع ہو گئے ہیں اور metallic grey رنگ کی گاڑی بک کرا دی گئی ہے۔ تب مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ رنگ ہوتا کیسا ہے۔ ان دنوں انٹرنیٹ اور ویب سائٹس بھی نہیں ہوا کرتی تھیں کہ وہاں گاڑی کا رنگ دیکھا جا سکے۔ پوچھنے پر بس اتنا بتایا گیا کہ سیاہی مائل خاکی سے رنگ کو metallic grey کہتے ہیں۔
گاڑی خریدنے کی خواہش کرنے اور گاڑی کا مالک بننے میں کتنے سال لگے؟ اندازہ یوں لگائیے کہ 1996 میں جس روز شو روم سے اپنی گاڑی وصول کرنے کا پیغام آیا، تب تک میں لگ بھگ 15 سال کا ہو چکا تھا۔
ہم جہلم میں رہتے تھے۔ اس وقت تک والد صاحب نے ڈرائیونگ نہیں سیکھی تھی۔ تو انہوں نے ڈرائیونگ جاننے والے ایک صاحب کو اپنے ساتھ اسلام آباد چلنے پر آمادہ کیا۔ تب ہفتہ وار چھٹی شاید جمعہ کو ہوا کرتی تھی۔ اس روز بھی شاید جمعہ ہی تھا کہ میں گھر پر تھا اور ساتھ چلنے کے لیے مچل رہا تھا۔ لیکن تب غالباً میرے سالانہ امتحانات قریب تھے کہ والد صاحب مجھے پڑھائی کرنے کا حکم دے کر گھر پر ہی چھوڑ گئے۔ مجھ سے پڑھائی کہاں ہونی تھی، جو خواب دیکھتے عمر گزری تھی وہ پورا ہونے جا رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ جہلم سے اسلام آباد جانے میں قریب دو گھنٹے تو لگیں گے اور اگر والد صاحب فوراً ہی واپس چل بھی پڑے تو واپسی میں بھی دو گھنٹے لگیں گے۔ یوں کم سے کم بھی چار گھنٹے سے پہلے ان کی واپسی کسی صورت ممکن نہیں۔ پھر بھی ان کے روانہ ہوتے ہی میں بالکونی سے ٹک کر ان کی راہ دیکھنے لگا۔ خواہش بس یہ تھی کہ جیسے ہی گاڑی آئے، میری نظر اس پر سب سے پہلے پڑے۔ معلوم نہیں کتنا وقت لگا، کہ میرے لیے تو ایک ایک منٹ ایک گھنٹے کے برابر تھا۔ جو مہران گاڑی دکھائی دیتی، چاہے وہ سفید یا سرخ رنگ کی ہی کیوں نہ ہوتی، یوں لگتا یہی اپنی کار ہے۔ وقت گزرتا رہا، بے تابی بڑھتی رہی، جانے کتنی صدیوں کے بعد سیاہی مائل خاکی سے رنگ کی ایک مہران اپنی طرف بڑھتی نظر آئی۔ دل کی دھڑکنیں تھمیں۔ غور سے دیکھا تو ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے والد صاحب کی جھلک بھی نظر آ گئی۔ یوں لگا شب انتظار ڈھل گئی ہو، سحر کا اجالا پھیل گیا ہو۔ دیوانہ وار دوڑا، سیڑھیاں پھلانگیں، گاڑی تک پہنچا، اسے ہاتھوں سے سہلایا، پلکوں پہ سجایا۔
گاڑی آئی تو گھر کے کاموں میں جو چچا ہماری مدد کرتے تھے، میں نے انہیں عاجز کر چھوڑا۔ کتنی کتنی بار انہیں تاکید کرتا کہ گاڑی صاف کرتے ہوئے ملائم کپڑا استعمال کیجیے گا، کہیں خراشیں نہ پڑ جائیں۔ گاڑی کی نگہداشت سے متعلق میری نگرانی اور مطالبات سن سن کر وہ تنگ آ گئے۔
میں گاڑی پر رگڑ کے ہلکے سے نشان کے متعلق بھی انتہائی حساس تھا، چچا کو بار بار پریشان کرتا۔ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایک نسبتاً گہرا صدمہ میرے تعاقب میں ہے۔
کتنے سال خواب دیکھنے کے بعد ہم اپنی گاڑی کے مالک بنے تھے۔ میں اس سوزوکی مہران کی نگہداشت سے متعلق بہت زیادہ حساس تھا۔ گاڑی صاف کرنے والے چچا کو بار بار تنگ کرتا کہ ملائم کپڑا استعمال کیا کریں، کہیں خراشیں نہ آ جائیں۔ لیکن ایک صدمہ میری حساس طبیعت کے تعاقب میں تھا۔
والد صاحب جن سے ڈرائیونگ سیکھ رہے تھے، ایک دن ان صاحب نے کہا کہ انہیں گاؤں جانا ہے اور گاڑی مانگ لی۔ برسوں کی مرادوں کے بعد ملی گاڑی یوں کسی کے حوالے کرنے کا جی تو نہ چاہا ہوگا، لیکن ڈرائیونگ سکھانے کے احسان کا بار بھی تھا، والد صاحب نے اجازت دے دی۔ وہ صاحب اپنے گاؤں سے واپس آئے تو ہماری گاڑی گہری خراشوں سے داغ دار ہو چکی تھی۔ گاؤں کے بچوں نے ہماری گاڑی پر اپنے تعلیم یافتہ ہونے کے ثبوت رقم کیے تھے۔ پتھروں سے گاڑی کے پورے جسم پر اے سے لے کر زیڈ تک انگریزی کے حروف تہجی لکھے تھے۔ گاڑی کو اس حالت میں دیکھ کر میری جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔
پھر گزرتا وقت مزید نشانات بھی ہماری گاڑی پر ثبت کرتا گیا۔ ایک بار بس نے اوور ٹیک کرتے ہوئے دائیں ہاتھ لگا وہ آئینہ توڑ دیا جو پیچھے کے مناظر دکھاتا ہے۔ آئینہ دروازے میں جہاں نصب تھا، وہ حصہ بھی اکھڑ گیا۔
لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھتے ہوئے مجھے جو سائیکل دلائی گئی وہ بھی اسی سوزوکی مہران پر رکھ کر لائی گئی۔ ہوا یہ کہ کسی کام سے راولپنڈی جانا ہوا تو وہاں بازار میں ماؤنٹین بائیک دیکھ لی۔ میں مچل گیا کہ اسے لے کر جانا ہے، جس شہر میں ہماری رہائش ہے وہاں سے ایسی سائیکل ملے گی نہیں۔ خیر صاحب! وہ سائیکل لی گئی۔ اسے ڈھونے کے لیے گاڑی کی چھت پر سامان رکھنے والا وہ جنگلا لگوایا گیا جسے انگریزی میں کیریئر کہتے ہیں۔ منزل پر پہنچ کر سائیکل کیریئر سے اتاری تو معلوم ہوا کہ سائیکل کا ایک پیڈل چھت کے جس حصے کو لگتا رہا ہے، وہاں کا رنگ کھرچا جا چکا ہے۔ کیریئر کو چھت سے جوڑے رکھنے کے لیے جو clump سا لگایا گیا ہے وہ بھی اپنے نشان چھوڑ چکا ہے۔ روغن گاڑی کا اترا، داغ میرے دل کو لگا۔
لیکن پھر رفتہ رفتہ گاڑی زندگی کا اس طرح حصہ بنتی گئی کہ اس کے ہونے کا جو احساس سا تھا، وہ معدوم ہونے لگا۔ مطلب اپنی گاڑی ہونے کی جو سہولت ہوتی ہے، اس سے استفادہ کرنے کے باوجود اس سے وابستہ سرشاری کی کیفیت مدھم پڑتی گئی۔ گاڑی کو ہلکی پھلکی سی کوئی رگڑ لگ بھی جاتی تو سر جھٹک کر نظر انداز کر دیتے۔
مزید وقت گزرا، میں خود گاڑی چلانے کی قانونی عمر کو پہنچ گیا۔ پھر گاڑی چلانا بھی اسی سوزوکی مہران پر سیکھا۔ اپنی زندگی کا جو پہلا کمپیوٹر لیا، وہ بھی اسی گاڑی پر رکھ کر گھر لایا گیا۔ شادی ہوئی تو بیگم کو لاہور بھی اسی گاڑی پر لایا۔ اپنے پہلے بیٹے کو اسپتال سے گھر لانے کے لیے بھی یہی سوزوکی مہران استعمال ہوئی۔
اب اس گاڑی کو 20 سال ہو چکے تھے۔ والد صاحب اصرار کرتے کہ وہ مجھے ایک اور گاڑی دلا دیتے ہیں، میں کہتا نہیں یہی ٹھیک ہے۔ ایک روز دوست کی شادی میں شرکت کے لیے لاہور سے سرگودھا جا رہا تھا تو برستی بارش میں موٹر وے پر درمیان والی لین میں گاڑی اچانک بند ہوگئی۔ بڑی مشکل سے ایک اور گاڑی کے پیچھے باندھ کر مکینک تک پہنچائی، ٹھیک کروائی۔ تھوڑا آگے گئے تو ایک اور مسئلہ ہوگیا۔ سلنڈر کا دھواں گاڑی میں بھر گیا۔ ایک اور موقع پر بھی اہل خانہ کے ہمراہ سفر کے دوران گاڑی میں خرابی ہوئی اور پریشانی کا سامنا ہوا۔ تب میں نے والد صاحب کی پیش کش قبول کی، 20 سال ساتھ نبھانے والی سوزوکی مہران سے دستبردار ہو کر سوزوکی ویگن آر لے لی۔ اب 10 سال سے یہ گاڑی ہمارا ساتھ نبھا رہی ہے۔