Sunday, 23 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. Kya Doston Ke Sath Hamesha Ke Liye Rehna Aap Ko Khushi Dega

Kya Doston Ke Sath Hamesha Ke Liye Rehna Aap Ko Khushi Dega

کیا دوستوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے رہنا آپ کو خوشی دے گا

قریب 20 سال پہلے اپنے ہم جماعت قیصر کے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر پوچھا تھا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے؟ جب اس نے بتایا کہ فلسفے کی کتاب پڑھ رہا ہوں تو حیرت ہوئی تھی۔ کیوں کہ اس وقت تک میں فلسفہ نامی کسی مضمون سے واقف ہی نہ تھا، حالاں کہ میری عمر 20 برس سے اوپر ہو چکی تھی (اندازہ لگائیے میری کم علمی اور نالائقی کا)۔ میں نے پوچھا تھا کہ فلسفہ کیا ہوتا ہے؟ قیصر بھی اس مضمون سے شاید نیا نیا ہی متعارف ہوا تھا، اس نے کتاب سے دیکھ کر بتایا تھا، "فلسفہ یہ ہے کہ آپ ایک تاریک کمرے میں ایک سیاہ بلی ڈھونڈ رہے ہیں، جس کا شاید وجود ہی نہیں ہے"۔

تاریک کمرے میں سیاہ بلی ڈھونڈنا، جس کا شاید وجود ہی نہ ہو۔۔ یہ فلسفہ ہے! بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ فلسفے کی یہ تعریف سن کر میں دیر تک ہنستا رہا تھا۔

کچھ میں ویسے کم علم ہوں، کچھ قصور اس تاثر کا ہے جو عمومی طور پر فلسفے کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ کوئی ذرا مختلف بات کر دے تو اسے کہتے ہیں، "یہ کیا فلسفہ بگھار رہے ہو"۔ کوئی بہت غور و فکر کرنے لگے تو اس کے لیے فلسفی کا لقب بطور طنز استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو کسی کو ارسطو یا افلاطون بھی تضحیک کے لیے ہی پکارا جاتا ہے۔ یوں اپنی کم علمی اور معاشرتی بنت کی وجہ سے میں فلسفہ پڑھنے پر مائل نہ ہو پایا۔

یاسر پیر زادہ صاحب کے کالم پڑھ کر فلسفیوں کو پڑھنے کا جی اگر چاہا بھی، تو ان کی کتابوں کے ورق پلٹتے ہوئے کچھ سمجھ ہی نہ آئی۔ سو اس مضمون سے دوری برقرار رہی۔

چند روز پہلے یہ کتاب میرے ہاتھ لگی جس کے متعلق میرا خیال ہے کہ اس میں اہم فلسفیوں کے خیالات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہوگا۔ اس میں خوشی کے متعلق ایک مفکرکے خیالات پڑھ کر تھوڑا ٹھٹکا۔ بہت سی باتیں تو وہی ہیں جو پہلے سے معلوم تھیں، یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ سوچ کو نیا زاویہ ملا، لیکن یہ ضرور ہوا کہ سوچ کی جامد جھیل میں جیسے کنکر گرا ہو اور کچھ لہریں پیدا ہوئی ہوں۔

یہ ہیں یونانی مفکر ایپی کیورس صاحب۔ یہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی چیز بہت زیادہ مقدار میں ملے تو خوشی نہیں دیتی۔ چاہے وہ دولت ہو، یا پھر محبت ہو۔

بھارتی فلم کا ڈائیلاگ یاد آیا، میرے پاس دولت ہے، شہرت ہے، گاڑی ہے، بنگلہ ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟ اس کے جواب میں دوسرا کردار کہتا ہے، "میرے پاس ماں ہے"۔

تو ایپی کیورس صاحب کی بات بھی فلمی سی لگی۔ بھلا زیادہ دولت خوشی کیسے نہ دیتی ہوگی؟ اس کا جواب تو تب ملے گا جب زیادہ دولت ملے گی، لیکن محبت؟ زیادہ محبت بھی خوشی نہیں دیتی کیا؟ ایپی کیورس صاحب کا کہنا ہے کہ محبت اور خوشی ساتھ ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ محبت میں حسد، غلط فہمیاں اور تلخی کا ہونا ناگزیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محبت کے مقابلے پر دوستی زیادہ خوشی دیتی ہے۔ کیوں کہ دوستوں کے ساتھ ہم نرمی سے پیش آتے ہیں، ان کی تضحیک نہیں کرتے۔ (میری سوچ: پھر مسئلہ محبت کا تو نہ ہوا، محبوب کے ساتھ ہمارے رویے کا ہوا)

ایپی کیورس صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے ناخوش ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دوستوں کے ساتھ وقت نہیں گزارتے۔ ایسا اکثر اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم میں اور ہمارے دوستوں میں زمینی فاصلے حائل ہوتے ہیں۔ ہماری رہائش گاہیں ایک دوسرے سے کافی فاصلوں پر ہوتی ہیں۔

ایپی کیورس اور ان کے دوستوں نے اس کا خاصا انقلابی سا حل نکالا تھا۔ انہوں نے اور ان کے دوستوں نے شہر سے باہر جگہ خرید کر وہاں اکٹھے رہائش اختیار کر لی تھی۔ بمع اہل و عیال۔ یوں سب دوست اکٹھے رہنے لگے تھے۔ بھلا آج کل کے دور میں ایسا ممکن بھی ہے؟ یاد آیا، معروف کالم نگار حسن نثار صاحب نے بھی دوستوں کے ساتھ مل کر ایسا ہی کیا تھا۔ انہوں نے وسیع و عریض اراضی خرید کر وہاں بیلی پور نام کی بستی بسائی تھی جس میں (غالباً) ان کے سب دوستوں نے اپنے اپنے گھر بنائے تھے۔ لیکن وہ جگہ شہر سے دور تھی اور جب حسن نثار صاحب کے بچے بڑے ہوئے تو ان کے اسکول/کالج/یونیورسٹی کی خاطر حسن نثار صاحب کو وہ بستی چھوڑ کر واپس شہر آنا پڑا۔

تو ایپی کیورس صاحب کا اقدام دل چسپ اور انقلابی تو ہے، لیکن شاید قابل عمل نہیں اور مجھے تو میرے دوست اچھے ہی اس وجہ سے لگتے ہیں کہ ان سے کبھی کبھار ملاقات ہوتی ہے (شرارتی مسکراہٹ)

پھر وہ کہتے ہیں کہ اگر کام آپ دولت اور شہرت کمانے کے لیے کر رہے ہیں تو وہ کام آپ کو خوشی نہیں دے گا۔ ہاں آپ کوئی بامقصد کام کریں گے، جس سے کسی کو کوئی فائدہ پہنچے، جس سے بھلائی ہو، تو وہ کام آپ کو حقیقی خوشی دے گا۔

ایپی کیورس اور ان کے دوست جب شہر چھوڑ کر مشترکہ رہائش گاہ میں قیام پذیر ہوئے تھے تو شہروں میں اچھا معاوضہ دینے والی ملازمتیں بھی چھوڑ آئے تھے اور پھر کھتی باڑی کرکے، فرنیچر بنا کر یا فن پارے بنا کر گزر بسر کرتے تھے۔

سوچتا ہوں کہ آج کے زمانے میں کوئی ایسا کرنے کا سوچے تو بجلی، گیس، پانی، ٹیلے فون، انٹرنیٹ کے بل کیسے بھرے گا؟

پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم بڑے اور عالی شان گھروں میں خوشی ڈھونڈتے ہیں، حالاں کہ اصل خوشی تو سکون میں ہے اور سکون آپ کے دل میں ہوتا ہے۔ (کسی کا جملہ یاد آ گیا، اصل سکون تو قبر میں ہے) ایپی کیورس صاحب کہتے ہیں کہ پریشانی پر پریشان ہونے کے بجائے اس کا تجزیہ کریں۔ پریشانی کے بارے میں سوچنے کے بجائے اسے سمجھیں۔

اب ایپی کیورس صاحب کی بہت سی باتیں مجھے تو ناقابل عمل لگیں، یہ پریشانی کا تجزیہ کرنے والی بات کی تو سمجھ ہی نہیں آئی۔ میں نے اسے یوں سمجھا کہ پریشانی کے بارے میں سوچنے کے بجائے اس پریشانی سے نکلنے کے بارے میں سوچیں۔

مطلب، میں شاید تمام باتوں سے متفق نہ ہوں، یا جن باتوں سے متفق ہوں ان پر عمل نہ کر سکوں۔ مثلاً میں ایپی کیورس صاحب کی بات مان کر نوکری چھوڑ دوں اور کوئی بامقصد کام شروع کر دوں، لیکن اس کام سے میرا کچن ہی نہ چلے تو پھر خوشی کہاں سے ملے گی؟

لیکن پھر بھی، یہ باتیں پڑھ کر سوچ کی جامد جھیل میں ایک کنکر گرا، کچھ لہریں پیدا ہوئیں اور نا قابل عمل سہی، لیکن سب دوستوں کے ساتھ اکٹھے رہنے کا خیال کیسا خوش کن ہے نا؟

جس کتاب سے پڑھ کر ایپی کیورس صاحب کے خیالات بیان کیے، اس کا نام ہے The School of Life – Great Thinkers۔

Check Also

Apni Matti

By Muhammad Saqib