Kya Column Likhne Wale Bhi Sahafi Hote Hain
کیا کالم لکھنے والے بھی صحافی ہوتے ہیں

اپنے علم کی کمی دور رکھنے کے لیے ایسے دوست بنا رکھے ہیں جو آگاہی، فہم، فراست اور شعور کا سمندر ہیں۔ انہی کے ساتھ بحث چھڑ گئی کہ کیا اخباری کالم کو بھی صحافت کہا جائے گا؟
بات شروع وہاں سے ہوئی تھی کہ محمد حنیف صاحب بی بی سی پر پنجابی میں جو وی لاگ کرتے ہیں، کیا وہ صحافت کہلائے گی؟
انہوں نے پوچھا، اگر بی بی سی پر محمد حنیف کا پنجابی وی لاگ صحافت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟
میرا جواب تھا، اسے آپ ایک گفتگو کہہ لیجیے اور کوئی باقاعدہ نام ہی دینا ہے تو صوتی کالم کہہ لیجیے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ وضاحت کر دوں کہ میں محمد حنیف صاحب کا مداح ہوں۔ ان کی لکھی ہر تحریر پڑھتا ہوں، اس سے سیکھتا ہوں۔ ان کا پنجابی وی لاگ بھی سنتا ہوں۔ ان کے ناول بھی پڑھ رکھے ہیں۔ ان کی صحافتی خدمات سے بھی واقف ہوں۔ وہ میرے لیے بہت محترم ہیں۔ جو لکھ رہا ہوں اس کا مقصد محمد حنیف صاحب کی شخصیت یا مقام پر انگلی اٹھانا ہر گز نہیں ہے۔ میں ان کے قد کاٹھ سے آگاہ بھی ہوں، اس کا معترف بھی ہوں اور مرعوب بھی۔ آپ آگے پڑھیں گے تو سمجھ جائیں گے کہ بات چیت ایک وسیع تناظر میں ہو رہی تھی۔
خیر، جب میں نے کہا کہ محمد حنیف صاحب اگر اپنے پنجابی وی لاگ میں اس طرح کی بات کریں کہ محلے میں ایک صاحب نے ان سے پوچھا عمران خان کب رہا ہوں گے اور انہوں نے یہ جواب دیا، تو اسے بہت ہی اعلیٰ پائے کی گفتگو کہا جا سکتا ہے، یا کوئی باقاعدہ نام ہی دینا ہے تو صوتی کالم کہہ لیجیے۔ صحافت تو نہ کہیے۔
اس پر ان کا سوال تھا، اگر کالم صحافت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟
عرض کی کہ ہمارے کالم نگار تو کچھ بھی لکھ دیا کرتے ہیں۔ کوئی اپنے کالم میں جم خانہ کے الیکشن کا احوال لکھتا ہے، کوئی کسی کالج میں ہوئی تقریب کا حال لکھتا ہے، کوئی خود پر بیتا ذاتی واقعہ درج کرتا ہے، کوئی اپنی درس گاہ کی مدح سرائی کرتا ہے، کوئی کسی سفر کا قصہ کہتا ہے، کوئی تو اس بات پر کالم لکھ دیتا ہے کہ فیس بک پر فلاں تحریر اسے بہت اچھی لگی، کوئی اپنے کالم میں لطیفے اور نظمیں لکھ دیتا ہے۔۔ کیا ایسی تحریر صحافت کہلائے گی اور اسے لکھنے والے کو صحافی کہہ دیا جائے گا؟
انہوں نے کہا کہ کالم اخبار کے ادارتی صفحے پر چھپتے ہیں۔ اسی صفحے پر اخبار ایڈیٹوریل کی صورت ادارے کا اجتماعی موقف بیان کرتا ہے۔ کسی اہم موضوع پر تبصرہ کرتا ہے، تجزیہ کرتا ہے، رہ نمائی کرتا ہے۔ اسی صفحے پر چھپنے والے کالم رائے سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، صاحبان اقتدار کے سامنے کالم نگار کوئی ایسا پہلو رکھتے ہیں جو ان کی سوچ کو نیا زاویہ دیتا ہے۔ یوں یہ تحریریں فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ حکومتیں اور ادارے رائے سازی کے لیے کالم نگاروں سے ملاقات کرتے ہیں (کچھ کچھ تو ان کی خدمات بھی لیتے ہیں۔ یہ میرا جملہ ہے اور بطور شرارت لکھا)۔ اس لیے کالم نگاری صحافت ہے اور کالم لکھنے والا صحافی۔
میں نے عرض کی، میرے نزدیک صحافت تین چیزوں کا نام ہے، خبر حاصل کرنا، اس کی چھان بین اور تصدیق کرنا اور اسے پیش کرنا۔
صحافت کی روح اطلاعات (Information) میں ہے، آراء (Opinion) میں نہیں۔ ہاں کبھی کبھار کسی کی رائے بھی خبر بن سکتی ہے۔ مثلاً ڈونلڈ ٹرمپ اگر کہیں، "مجھے لگتا ہے بھارت اور پاکستان میں جنگ ہو جائے گی"، تو یہ خبر ہے۔ یہی بات میں کہوں تو رائے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کہی بات اخبار کے پہلے صفحے پر سرخی لگے گی، میری رائے اگر اخبار نے چھاپ دی تو اپنے ادارتی صفحے پر چھاپے گا۔
کسی رائے کی خبر بننے کی دوسری صورت یہ ہے کہ، مثال کے طور پر، حکومت بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھاتی ہے اور کوئی رپورٹر کئی سرکاری ملازمین سے جا کر پوچھتا ہے، کیا اتنی تنخواہ میں ان کا گھر چل سکے گا؟ یوں کئی ملازمین کی رائے لے کر خبر بنائی جا سکتی ہے کہ بجٹ میں جو تنخواہیں بڑھائی گئیں ان پر ملازمین مطمئن ہیں، یا غیر مطمئن ہیں۔ یہ رائے خبر کہلائے گی۔ اس رائے کو اکٹھا کرنے والا صحافی کہلائے گا۔
جو کسی میڈیا ادارے میں کوئی ادارتی ذمہ داری انجام دے رہا ہے یا رپورٹنگ کر رہا ہے، وہ صحافی تو ہے، لیکن اگر وہ کالم بھی لکھ دے تو کیا اس کالم کو صحافت کہا جائے گا؟ کالم نگار اگر صرف اپنی رائے لکھ رہا ہے، وہ خبر اکٹھی نہیں کر رہا، اس کی تصدیق نہیں کر رہا، تو وہ مضمون نگار، رائے نویس، تجزیہ کار یا کالم نگار تو ہو سکتا ہے، مگر کیا اسے صحافی بھی کہا جائے گا؟ اور اس کی تحریر صحافت کہلائے گی؟
کیا کوئی بھی فرد جو اخبار میں، یا کسی خبری ویب سائٹ پر لکھ رہا ہے، یا خبریں دینے والے کسی ٹیلے وژن چینل پر اپنا تجزیہ دے رہا ہے، کیا وہ صحافی کہلائے گا؟ کیا ہر وہ شخص جو ہزار الفاظ کی تحریر لکھ سکتا ہو اور اخبار اپنے ادارتی صفحے پر وہ تحریر چھاپنے پر امادہ ہو تو کیا وہ صحافی کہلائے گا؟
اور سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی خبر، دے جس کی سرخی ہو "وزیر خزانہ نے تلخ و ترش سوالات کا جواب خندہ پیشانی سے دیا"، یا یہ خبر، دے کہ "مریم نواز کا پہلا پالیسی بیان، سرکاری ملازمین میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی" اسی خبر میں آگے لکھا ہو، "یوں انہوں نے حلف برداری سے ایک ہفتہ قبل آئرن لیڈی، کا ٹائٹل اپنے نام کرلیا ہے"۔
مریم نواز کے بیان سے ملازمین کے اطمینان پر خبر دینے والا اگر سرکاری ملازمین کی کسی انجمن سے گفتگو کرتا اور اس کے عہدے دار کا موقف اپنی خبر میں شامل کرتا اور اپنے موقف میں عہدے دار کہہ رہا ہوتا کہ مریم نواز کے بیان کے بعد ملازمین میں اطمینان کی لہر دوڑی ہے، پھر تو یہ خبر دی جا سکتی تھی اور وہ خبر کہلا بھی سکتی تھی۔ لیکن نامہ نگار نے خود سے ہی فرض کر لیا، اپنے مفروضے کو لکھ بھی دیا اور یہ مفروضہ اخبار کے پہلے صفحے پر دیگر خبروں کے ساتھ چھپ بھی گیا، تو کیا یہ بھی صحافت کہلائے گا؟ کیا ایسی خبر، دینے والے اور اسے چھاپنے والے بھی صحافی کہلائیں گے؟

