Khuda Hafiz Samoso
خدا حافظ سموسو

پیالے میں پڑے سموسے نے مجھے آنکھ ماری تھی اور ضبط کے سب بندھن ٹوٹ گئے تھے۔
زندگی کا وہ مرحلہ آن پہنچا ہے جب کچھ عوارض لاحق ہو چکے ہوتے ہیں اور دیگر سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاط لازم ہو جاتی ہے۔ مشروبات سے پرہیز ویسے ہی تھا، دینے والوں نے نشاستے سے بھی اجتناب کا مشورہ دے رکھا ہے۔ لہذا جن چیزوں میں آلو کا عمل دخل ہوتا ہے ان سے بھی دور ہی رہتا ہوں۔ پھسل جانے کا ڈر ہے، اس لیے چکنائی سے بھی کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے، تو ظاہر ہے چکنائی میں تلی گئی اشیا سے بھی گریز ہے۔
طویل قصے کو مختصر کروں تو میرے پیٹ میں جانے والے سموسوں پکوڑوں کی سالانہ شرح اتنی ہی بنے گی جتنی کہ اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی کی ہے۔ جن چیزوں کے آخر میں، اب (بر وزن آب) آتا ہے ان سے بھی احتیاط ہے۔ جیسے کہ کباب۔ شباب تو ویسے ہی کب کا جا چکا۔
یہ تکنیکی سی تمہید اس لیے باندھی کہ آپ کو بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ اب کی بار رمضان المبارک میں بھی سموسوں پکوڑوں سے فاصلہ اختیار کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ ماہ صیام شروع ہوا تو دو دن، یقین مانیے، پورے دو دن میں نے سموسوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ ہائے، میرا ضبط کیسے امتحان سے گزرا۔ لیکن پھر تیسرے ہی دن وہ کم زور لمحہ آ گیا جب میں سموسے کو اپنے پیالے میں آنے سے نہ روک سکا۔
جب ایک بار یہ ہوگیا تو کیسی کیسی فکریں نہ لاحق ہوئیں۔ کیا کرتے ہو میاں، کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جائے گی، سموسے میں ڈلا نمک فشار خون بڑھا دے گا، اس میں ڈلی مرچیں کھانے کے بعد بیوی کے کوسنے بھی میٹھے لگنے لگیں گے اور آلو۔ بھلے آدمی! وزن کا خیال نہیں کرنا تو مستقبل کا خیال ہی کر لو۔ لیکن صاحبو کیا بتاؤں، سموسے پر جی ایسے مچلا کہ مانو قیامت بھی آ جائے تو آج کھا کر ہی چھوڑوں۔ ویسے بھی وہ زندگی ہے ہی کس کام کی جس میں سموسہ نہ ہو۔
یہی وہ وقت تھا جب پیالے میں پڑے سموسے نے آنکھ ماری اور میری انا ہار گئی، ضبط کو شکست فاش ہوئی اور سموسہ میرے وجود کا حصہ بن گیا۔
مانتا ہوں کہ سموسہ کھانے میں میرے اپنے کم زور ارادوں کا ہاتھ ہے، لیکن دل کے بہلانے کو تاویلات گھڑتا رہا۔ مثلاً: یہ بھی تو دیکھیے کہ سموسے کا مزاج کیسا دوستانہ ہوتا ہے۔ سادہ سموسہ کھائیں تو بھی لطف دیتا ہے۔ اس میں چنے ڈال دیں تو ان سے بھی گھل مل جاتا ہے۔ چٹنی کی آمیزش تو کھانے والے کو آسمان پر پہنچا دیتی ہے۔ اب ساتھ میں فریج سے نکلا ٹھنڈا مشروب پی لیں یا چولہے سے اتری چائے، ہر دو صورتوں میں کیف اور سرشاری ملے گی۔ ہم آہنگی کا ایسا مظاہرہ بھلا کسی اور غذا کے ساتھ ممکن بھی ہے؟
مشتاق احمد یوسفی صاحب کے فرمائے ہوئے میں تھوڑی سی تحریف کروں تو سموسہ نیک چلنی کی بھی ضمانت ہے۔ سموسہ کھانے والے کا وزن تو لازمی بڑھے گا۔ وزن بڑھے گا تو جسم کی ساخت بے ڈھب ہوگی اور بے ڈھب افراد کے پاس راہ راست پر چلنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔
تو پیارو! زیادہ قصور اپنی بے خودی کا تھا، ساتھ میں دل کو یہ تسلی بھی دیتا رہا کہ پورا دن بھوکا رہنے کے بعد اگر ایک سموسہ کھا بھی لیتا ہوں تو کیا فرق پڑ جانا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا نا کہ پہلے سے بڑھا ہوا وزن چند ہزار گرام مزید بڑھ جائے گا۔
لیکن اب عید کے بعد پھر سے جی میں ٹھانی ہے کہ سموسہ خوری کا باب بند کر دیا جائے گا۔ کچھ روز زندگی میں خلا سا محسوس ہوگا، پھر شاید عادت ہو جائے۔