Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. Imran Khan Ka Muaqaf Durust Sabit Ho Gaya?

Imran Khan Ka Muaqaf Durust Sabit Ho Gaya?

عمران خان کا موقف درست ثابت ہو گیا؟

عمران خان کے جو حامی ہیں وہ افغانستان اور پاکستان میں مذاکرات کو عمران خان کے موقف کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، دیکھا! عمران خان بھی طالبان سے مذاکرات کا ہی کہتے تھے اور اب حکومت کو بھی طالبان سے مذاکرات ہی کرنے پڑے۔

ایسے لوگوں کی خدمت میں ایک مختلف موقف پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ جو افغانستان کے طالبان ہیں اور جو پاکستان کے طالبان ہیں، ان کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ جو افغانستان کے طالبان ہیں، وہ افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ جو پاکستان کے طالبان ہیں، وہ پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں، وہ پاکستان کے علاقوں پر اپنی عمل داری چاہتے ہیں، وہاں اپنی سوچ اور اپنے قوانین کو نافذ کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں۔ جیسے، مثال کے طور پر، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانا ٹھیک نہیں ہے، تو وہ قطرے پلانے والے اہل کاروں کو قتل کر دیتے ہیں۔ فوجی چوکیوں پر، فوجی قافلوں پر حملے کر دیتے ہیں۔ عوامی مقامات کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان حجاموں کی دکانوں پر بھی دھاوا بول دیتے ہیں جہاں داڑھی تراشی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ اپنی سوچ کو ہتھیار کی قوت سے نافذ کرتے ہیں۔

تو کوئی بھی ایسا فریق جو ریاست کے اندر اپنی ریاست بنائے اور اس ریاست کے اندر اپنے قوانین نافذ کرے اور ایسا کرتے ہوئے ہتھیار اٹھائے۔۔ ایسے فریق سے کوئی مذاکرات اگر ہوں بھی، تو وہ یہی ہو سکتے ہیں کہ آپ ہتھیار پھینکیں اور ریاست کے کرنے والے کام خود نہ کریں۔ کسی علاقے میں خود کو مسلط نہ کریں۔ اس ایک شرط کے علاوہ، مذاکرات کی کوئی اور شرط ہو بھی کیا سکتی ہے؟ کہ اتنے نہیں بلکہ اتنے علاقے پر اپنی عمل داری قائم کر لیں، یا اتنے نہیں، بلکہ اس سے تھوڑے بندے مار لیں؟

مطلب یہ، کہ ریاست کے اندر کوئی فریق، اگر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے، تو اس فریق کی شکست تک، یا ریاست کی شکست تک، اس سے جنگ ہی ہوتی ہے۔ مذاکرات اگر ہوتے بھی ہیں تو ریاست مخالف فریق سے یہ یقین دہانی لینے کے لیے ہوتے ہیں، کہ اب وہ ہتھیار پھینک دے گا اور اچھا بچہ بن کر رہے گا۔

ریاست کے اندر، ریاست سے لڑنے کے لیے، کوئی بھی فرد یا جتھہ، اگر ہتھیار اٹھائے گا تو جواب میں ریاست بھی ہتھیار ہی چلائے گی، صرف زبان نہیں چلائے گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آپ کے پلاٹ پر قبضہ کر لے - کیا آپ اس سے بھی مذاکرات کریں گے، کہ ٹھیک ہے 10 مرلے میں سے دو مرلے تم لے لو اور ہم امن سے رہتے ہیں؟ یا آپ اسے اپنے پلاٹ سے بے دخل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے؟

تو، جو صاحبان یہ سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان سے مذاکرات کرکے حکومت نے عمران خان کا موقف درست ثابت کر دیا ہے، وہ ایک بنیادی غلطی کر رہے ہیں، وہ افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے طالبان کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان سے جو مذاکرات ہوئے، اس کے پیچھے بھی ایک طویل کہانی ہے۔ ریاست پاکستان کی شکایت یہ ہے کہ پاکستان پر حملے کرنے والے پاکستانی طالبان نے اپنے ٹھکانے افغانستان میں بنا رکھے ہیں۔ مطالبہ یہ ہے کہ وہ ٹھکانے ختم کر دیے جائیں اور ان طالبان کو پاکستان پر حملے سے روکا جائے۔ جب افغان طالبان نے یہ مطالبہ پورا نہ کیا تو پاکستان نے خود اُن پاکستانی طالبان کے افغانستان میں موجود ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے افغان طالبان نے بھی پاکستان پر حملہ کر دیا اور یوں دونوں ممالک کے بیچ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ جنگ میں اور جھڑپوں میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔

عام طور پر جب دو ریاستیں ایک دوسرے سے جنگ کرتی ہیں تو اس کا مقصد دوسری ریاست پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ ریاست وہ مقصد حاصل ہونے تک، یا اپنی شکست تک، جنگ کو جاری رکھتی ہے۔ دونوں فریق تگڑے ہوں اور جنگ ختم ہونے کا امکان نہ ہو، یا کسی بھی وجہ سے جنگ جاری رکھنا ممکن نہ ہو، تو پھر بھی مذاکرات ہوتے ہیں۔

لیکن افغانستان پاکستان جنگ میں نہ تو پاکستان کا یہ مقصد تھا کہ افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کیا جائے اور نہ ہی افغانستان یہ چاہتا تھا کہ پاکستان کے کسی حصے پر قبضہ کیا جائے۔ ایسی دو طرفہ جھڑپیں روکنے کے لیے بھی آخرکار فریقین کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے: بات ہوتی ہے، ایک دوسرے کے تحفظات سنے جاتے ہیں اور کسی قابلِ عمل حل کی طرف بڑھا جاتا ہے۔

لہذا، ریاست کے اندر رہ کر ریاست سے لڑنے والے گروہ اور کسی دوسری ریاست سے لڑنے میں فرق ہوتا ہے اور لڑنے پر آمادہ کسی فریق کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے بھی جنگ ہی کرنا پڑتی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan