Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. DV

DV

ڈی وی (بر وزن بیوی)

میری لکھنے کی میز کے پیچھے ایک الماری ہے۔ اس میں برسوں پرانا کاٹھ کباڑ بھرا ہے۔ الجھی اشیاء، بے ترتیب یادیں، الم غلم چیزیں۔ سیاہ، سرخ اور نیلے رنگ کے بورڈ مارکر ہیں۔ لیپ ٹاپ کا چارجر ہے، سٹیپلر ہے، پینسل شارپنر ہے، کتنے ہی ایسے موبائل فون پڑے ہیں، ناکارہ ہونے پر جنہیں پھینکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہ ریڈیو ہے جو یونیورسٹی کے زمانے میں لاہور کی ہال روڈ سے خریدا تھا اور اس پر بی بی سی کی نشریات پکڑنے کے لیے ادھر اُدھر دوڑتا پھرا تھا۔ ایک ٹیپ ریکارڈر ہے، ڈیجیٹل دور آنے سے پہلے جس پر انٹرویوز ریکارڈ کیا کرتا تھا۔ وہ کیسیٹس بھی ہیں جن پر کتنی ہی آوازیں بھری ہیں اور ایک ڈی وی بھی ہے۔ کیسیٹ پر اگر آواز ریکارڈ ہوتی تھی تو ڈی وی ویڈیو ریکارڈ کرنے کے کام آتی تھی۔ ڈی وی مخفف ہے ڈیجیٹل ویڈیو کیسیٹ کا، گرائمر کے اصول سے ڈی وی کا جمع ڈی ویز ہونا چاہیے تھا، لیکن ہماری زبانوں پر چڑھ کر وہ ڈی ویاں (بر وزن بیویاں) ہوگیا تھا۔ کہیں ریکاڈنگ پر جانے سے پہلے یہ آواز ضرور لگا کرتی، "ڈی ویاں لے آؤ"۔ 

آج کے دور کے لوگ شاید سمجھ ہی نہ پائیں کہ کیسیٹ یا ڈی وی ہوتی کیا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے آواز یا ویڈیو ریکارڈ کرنے کے لیے بڑے حجم والا میموری کارڈ ہے، جو جگہ تو زیادہ گھیرتا ہے لیکن ڈیٹا کم سنبھالتا ہے۔

اس روز الماری میں ڈی وی پر نظر پڑی تو برسوں پہلے فیصل آباد کا سفر یاد آیا۔ میں جس پروڈکشن ہاؤس میں کام کرتا تھا وہ پی ٹی وی کے لیے بھی ایک پروگرام تیار کیا کرتے تھے۔ نام اس پروگرام کا یاد نہیں، میگزین شو تھا، مطلب اس میں فیشن، پہناووں، ثقافتی تقریبات کی بات کی جاتی تھی۔ فیشن ڈیزائنرز اور فنکاروں کے انٹرویوز بھی کیے جاتے تھے۔ اس پروگرام کی ریکارڈنگ میں معاونت کرنا بھی میری ذمہ داریوں میں شامل تھا۔

فیصل آباد میں کوئی محفل موسیقی یا عرف عام میں کنسرٹ ہونے جا رہا تھا۔ اس میں اپنی آواز کا جادو جگانے بھارت سے گلوکار سکھبیر سنگھ آئے تھے۔ پاکستان سے عینی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ تقریب کی کمپیئرنگ عمر شریف کر رہے تھے۔

کنسرٹ منتظمین نے اس کی فلم بندی کے لیے ایک ٹیم کی ذمہ داری لگا رکھی تھی۔ مجھے بھی فیصل آباد بھیجا گیا تاکہ اپنے پروگرام کے لیے اس کی کوریج کر سکوں۔ تاہم، میرے ساتھ کوئی کیمرہ مین بھیجا گیا اور نہ ہی معاون عملہ۔ مجھ سے کہا گیا کہ فلم بندی کے لیے ٹیم پہلے سے موجود ہوگی، وہی میرے مطلب کی فوٹیج بھی شوٹ کر دے گی اور الگ سے مجھے ایک ڈی وی پر کاپی کر دے گی۔ تو میرے ادارے والوں نے مجھے بس سونی یا پیناسونک کمپنی کی ایک ڈی وی دے کر فیصل آباد بھیج دیا۔

میرا کام یہ تھا کہ ایک تو کنسرٹ کی ریکارڈنگ کرنے والی ٹیم سے کہہ کر وہ شاٹس بنوا لوں جو مجھے اپنے پروگرام کے لیے درکار ہوں گے، دوسرا اس تقریب میں گانے کے لیے آئے گلوکاروں کے انٹرویو کر لوں۔

جب میں وہاں پہنچا اور ریکارڈنگ والی ٹیم سے ملا تو وہ ایک پریشانی سے دوچار تھے۔ وہ ریکارڈنگ کے لیے جو ڈی وی لے کر آئے تھے، کیمرہ اسے قبول کرنے سے انکار کر رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، آپ کے پاس کون سی ڈی وی ہے؟ میں نے بتایا یہ والی۔ کہنے لگے، ہمارے والی چل نہیں رہی، آپ اپنی ڈی وی ہمیں دے دیں۔

اس وقت مجھے کچھ زیادہ سمجھ بھی نہیں تھی، ان کا مطالبہ سن کر گھبرا گیا۔ میں نے کہا، یہ ڈی وی تو میرے دفتر کی امانت ہے، آپ کو نہیں دے سکتا، اس پر تو میں نے اپنے پروگرام کے لیے شاٹس وغیرہ کاپی کرانے ہیں۔ وہ کہنے لگے، آپ یہ ڈی وی ہمیں دے دیں، ہم آپ کو اس کی جگہ نئی دے دیں گے۔ میں دل میں ڈرا کہ اگر انہوں نے نہ دی تو، دفتر والے پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا، لہذا انکار کر دیا۔ وہ پہلے ہی خاصے پریشان تھے، میرے انکار پر تو بھنا ہی گئے۔ کہا، اس وقت ہمیں ڈی وی دے دیں، ہمارا کام چالو ہو جائے، ہم اسی وقت اپنا بندہ دوڑا کر نئی ڈی وی منگوا رہے ہیں، وہ آپ لے لیجئے گا۔

بے اعتباری اور خوف کی وجہ سے میں انہیں انکار کرتا رہا۔ اس وجہ سے ٹیم کے منتظم سے میرے تعلق میں سرد مہری سی آ گئی۔ دوسرا، ان کا کوئی اپنا پروڈکشن کا سلسلہ بھی تھا، تقریب میں آئے گلوکاروں سے وہ اس کی تشہیر کے لیے جملے بولنے کا کہہ رہے تھے اور اپنی پروڈکشن کے لیے بھی ان گلوکاروں کے انٹرویوز کرنا چاہتے تھے۔ ٹیم کے منتظم غالباً انٹرویوز کے لیے سوال سوچ نہ پا رہے تھے اس لیے مجھ سے کہنے لگے، آپ جو سوال لکھ کر لائے ہیں وہ مجھے دے دیں۔ لیکن وہ سوال تو میں اپنے پروگرام کے لیے لکھ کر لایا تھا، انہیں کیوں دیتا؟ بہانا بنا دیا کہ میں نے سوال لکھے نہیں ہوئے، بس ذہن میں سوچے ہوئے ہیں۔ تو انہوں نے کاغذ قلم میری طرف بڑھا کر کہا، جو سوچے ہوئے ہیں وہ اس پر لکھ دیں۔ زچ آ کر میں نے کچھ سوال لکھ دیے اور انہوں نے وہی پوچھے بھی۔ پھر مجھے سوالات کی دعوت دی گئی تب میں نے وہ سوال کیے جو میں تیار کرکے لایا تھا۔

اُس وقت میری جو کیفیت ہو رہی تھی، معلوم نہیں اس کا ابلاغ کر پا رہا ہوں یا نہیں۔ ڈی وی نہ دینے والے معاملے پر اس ٹیم کے رویے میں سردمہری سی ہے، کام چل تو رہا ہے لیکن ماحول میں کشیدگی ہے۔ اوپر سے سوالات کے لیے میری مدد مانگی، نہیں جا رہی، بلکہ مجھے حکم، دیا جا رہا ہے کہ اپنے تیار کردہ سوالات ان کے حوالے کر دوں۔ یہ حکم دیتے ہوئے انداز بھی تکبرانہ سا ہے۔ یہ سب کچھ میرے لیے بے سکونی اور الجھن پیدا کر رہا تھا۔

جب کنسرٹ ختم ہوا تو ان سے کہا کہ میرے مطلوبہ حصے میری ڈی وی پر کاپی کر دیجیے۔ وہ کہنے لگے، لاہور جا کر دے دیں گے۔ یوں تمام وقت الجھن اور گھٹن میں گزارنے کے بعد میں خالی ڈی وی کے ساتھ ہی واپس آ گیا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam