Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. Bore Hona Bohat Zaroori Hai, Lekin Kyun?

Bore Hona Bohat Zaroori Hai, Lekin Kyun?

بور ہونا بہت ضروری ہے، لیکن کیوں؟

2014 میں امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں نفسیات پڑھانے والے استاد ڈینیئل گلبرٹ نے ایک بڑا دل چسپ تجربہ کیا۔ انہوں نے 18 مردوں کو ایک کمرے میں بٹھایا۔ انہوں نے 15 منٹ تک کمرے میں بس بیٹھنا تھا، سوچنا تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرنا تھا (یعنی بور ہونا تھا)۔ ہاں ان کے سامنے ایک بٹن رکھا گیا تھا، جسے دبانے سے بجلی کا جھٹکا لگنا تھا۔ اس تجربے میں شریک 18 مردوں کا کام یہ تھا کہ 15 منٹ تک یا تو بیٹھے بور ہوتے رہیں، یا خود کو بجلی کا جھٹکا دے لیں۔

اس تجربے کا نتیجہ کیا نکلا؟ 18 میں سے 12 مردوں نے بیٹھ کر بور ہونے اور سوچنے کے بجائے خود کو بجلی کے جھٹکے دینا پسند کیا۔ یعنی ہم میں سے زیادہ تر لوگ بور ہونے سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ صرف بوریت دور کرنے کے لیے خود کو بجلی کے جھٹکے دینے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔

اس قدر برا لگتا ہے ہمیں بور ہونا۔ لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کے ہی ایک استاد ہیں آرتھر بروکس، وہ کہتے ہیں ہمارے لیے بور ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم بور نہیں ہوں گے تو اداس ہو جائیں گے، depress ہو جائیں گے۔

آرتھر بروکس کی یہ بات اس عمومی خیال کے برعکس ہے جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ کچھ نہ ہونے سے ہم بور ہو رہے ہیں، بور ہونے سے اداس ہو رہے ہیں اور اداس ہونے سے بے چین ہو رہے ہیں، اضطراب کا شکار ہو رہے ہیں۔ تو ہم کوئی مصروفیت ڈھونڈتے ہیں جو ہماری بوریت کم کر سکے۔

آرتھر بروکس صاحب نے اس عمومی تاثر سے بالکل مختلف بات کی اور میری سوچ کو ایک نیا زاویہ دیا۔ ہارورڈ بزنس ریویو نامی یو ٹیوب چینل پر ان کی لگ بھگ چھ منٹ کی گفتگو ہے، جس میں وہ بتاتے ہیں کہ جب آپ بور نہیں ہوتے (یعنی خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھتے ہیں) تو آپ کی زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔

کیسی عجیب اور مختلف سی بات ہے۔

بوریت ہوتی کب ہے؟ جب ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ جب ہمارا دماغ کسی سرگرمی میں مصروف نہیں ہوتا۔ تب ہم بور ہوتے ہیں۔ آرتھر بروکس کہتے ہیں کہ اسی بوریت کے عالم میں ہمارے دماغ کا ایک حصہ متحرک ہو جاتا ہے، جسے کہتے ہیں "ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک"۔

یہ لفظ ذرا بھاری بھرکم سا ہے، لیکن سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جب آپ کے پاس کرنے اور سوچنے کو کچھ نہ ہو، تو دماغ کے جو حصے متحرک (active) ہوں گے، وہ ہیں ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک۔

عام طور پر کیا ہوتا ہے۔۔ ہمارے پاس کوئی کام نہ ہو، ہم کسی جگہ بیٹھے ہوں، یا ٹریفک اشارے پر رکے سرخ بتی کے سبز ہونے کا ہی انتظار کر رہے ہوں، تو 45 سیکنڈ کے لیے بھی ہم سے فارغ نہیں بیٹھا جاتا، ہم فوراً سے اپنا موبائل فون اٹھا کر اس پر پیغامات دیکھنے لگتے ہیں یا اسکرولنگ کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے موبائل فون ہمارے پاس نہیں ہے اور ہم نے صرف اور صرف بیٹھ کر انتظار کرنا ہے، کسی کے آنے کا، یا سرخ بتی کے سبز ہونے کا اور ہمارے پاس کوئی بات کرنے والا بھی موجود نہیں ہے، تو ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک آن ہو جائے گا۔

آرتھر بروکس کہتے ہیں، بور ہونے سے جب ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک آن ہوتا ہے، تب ہم سوچنے لگتے ہیں۔ جب ذہن پر سوچوں کی یلغار ہوتی ہے تو اس طرح کے خیالات بھی آنے لگتے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ جو ہم کر رہے ہیں وہ ٹھیک کر رہے ہیں یا نہیں؟ اس طرح کے سوالات ہمیں پریشان کر دیتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہم فوراً سے کوئی سرگرمی تلاش کرنے لگتے ہیں۔ چاہے وہ سرگرمی موبائل فون پر بے مقصد اسکرولنگ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ سرگرمی ہمارے دماغ کا ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک آف کر دیتی ہے۔

اس کے برعکس، اگر آپ دماغ کے ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک کو آن رہنے دیں، اپنے بارے میں سوچیں، اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں، اس زندگی کے مقصد کے بارے میں سوچیں۔۔ تو اپنی زندگی کا مطلب تلاش کر پائیں گے۔ لیکن اگر آپ بوریت سے گھبرا کر اپنا فون نکال لیں گے، اپنی زندگی کا مقصد سوچنے کے بجائے بے مقصد اسکرولنگ کریں گے، ریلز دیکھیں گے، ایسا کرتے ہوئے سوالات سے تو پیچھا چھوٹ جائے گا لیکن آپ کے اندر کا خالی پن بڑھ جائے گا اور یہ خالی پن ہی بے چینی اور اداسی پیدا کرتا ہے۔

یہ کہنا ہے آرتھر بروکس کا، وہ یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ خود کو 15 منٹ سے زیادہ بور ہونے کی عادت ڈالیں، پھر دیکھیں آپ کی زندگی کیسے بدلتی ہے۔ خود آرتھر بروکس صاحب شام سات بجے کے بعد تفریح فراہم کرنے والی کوئی ڈیوائس استعمال نہیں کرتے۔ باقاعدگی کے ساتھ سوشل میڈیا اور اسکرین سے وقفے لیتے ہیں اور خود کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کی زندگی ان آلات کے گرد نہیں گھومتی۔

میرا خیال ہے کہ آرتھر بروکس صاحب کی بات مان کر ہم نے بور ہونے کی عادت ڈال لی تو معمولی معمولی باتوں سے بھی خوش ہو جایا کریں گے۔ کیوں کہ یہ جو ہمیں موبائل فون استعمال کرنے کی عادت پڑ چکی، اس پر ہمیں طرح طرح کا ایک سے ایک دل چسپ مواد دستیاب ہوتا ہے، تو ہمیں معمول کی باتوں کا، دوستوں کی گپ شپ کا مزا ہی نہیں آتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب یار دوست کتنے کتنے عرصے بعد بھی ملتے ہیں تو آپس میں بات کرنے کے بجائے موبائل فونز میں سر دیے رہتے ہیں۔

ٹوئٹر پر کسی نے کیا ٹویٹ کیا، فیس بک پر کسی نے کیا اسٹیٹس ڈالا، کس نے کہاں جا کر تصویر لی اور انسٹا گرام پر آپ لوڈ کی، اگر آپ کو اس کا فوری طور پر معلوم نہیں ہوگا تو بھی کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ فون نیچے رکھ دیں گے تو زندگی زیادہ با معنی لگے گی۔

اگر آپ بور ہونا سیکھ جائیں، تو خوش ہونا بھی سیکھ جائیں گے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz