19 Saal Pehle Ka Aik Khat
19 سال پہلے کا ایک خط

19 برس پرانے اس خط نے اچانک سامنے آ کر مجھے حیران کر دیا۔ بلند قامت ایم اے نیازی صاحب میری بات سنتے سنتے رکے تھے، پنجاب یونیورسٹی ادارہ علوم ابلاغیات کے داخلی دروازے پر کھڑے ہو کر سگریٹ سلگائی تھی اور گہرا کش لے کر مجھ سے کہا تھا۔۔ ذہن کے پردے پر یادوں کی ریل چلنے لگی۔
خط کا قصہ یہ ہے کہ الماری میں کب سے متروک پڑا ایک بیگ استعمال کرنے کی نوبت آئی۔ اسے کھولا گیا تو 19 برس پہلے میرے نام لکھا گیا یہ خط برآمد ہوا۔ 13 ستمبر 2006 کو روزنامہ دی نیشن کے اکاؤنٹس آفیسر نے یہ خط میرے نام لکھا تھا اور بتایا تھا کہ جولائی میں شائع ہونے والی میری تحریروں کے معاوضے کا چیک ساتھ منسلک ہے۔
ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ روزنامہ دی نیشن کے سنڈے میگزین کے لیے فری لانس کام کرتا تھا۔ مطلب یہ کہ میری کوئی لگی بندھی تنخواہ نہیں ہوتی تھی، لیکن میگزین میں کوئی تحریر شائع ہونے پر رقم ادا کی جاتی تھی۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، سنڈے میگزین اتوار کے اتوار شائع ہوا کرتا تھا اور ہر شائع ہونے والی تحریر پر مجھے 800 روپے دیے جاتے تھے۔ ان میں سے 40 روپے ٹیکس کٹ جاتا اور بقایا 760 روپے میرے ہوتے۔ جولائی 2006 میں میری تین تحریریں شائع ہوئی ہوں گی جن کے 2400 روپے بنے ہوں گے۔ جبھی 120 روپے ٹیکس کاٹ کر 2280 روپے کا چیک میرے یونیورسٹی والے پتے پر بھیجا گیا۔
یقین کیجیے، ان دنوں پنجاب یونیورسٹی ہاسٹلز میں رہنے والا 2280 روپے میں ٹھیک ٹھاک عیاشی سے پورا مہینے گزار سکتا تھا۔ جس مہینے چار تحریریں چھپتیں اور تین ہزار 40 روپے ملتے، تب تو قدم زمین پر ہی نہیں ٹکتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب صحافت پر اخبارات کا راج تھا۔ پاکستان میں ٹیلے وژن کی صحافت ابھی پنگھوڑے سے نکل کر پاؤں پاؤں چلنا شروع ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا نے تو تب آنکھ ہی کھولی تھی۔ اس وقت کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب سوشل میڈیا روایتی صحافت کو نگل چکا ہوگا۔
دی نیشن تک میری رسائی بھی دل چسپ واقعہ ہے۔ دی نیشن کے مدیر ایم اے نیازی صاحب پنجاب یونیورسٹی میں ہمیں انگریزی صحافت پڑھایا کرتے تھے۔ جب تک وہ پڑھاتے رہے، اس وقت تک تو ان سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ میں اگلے سمسٹرز میں چلا گیا، ایم اے نیازی صاحب کسی اور جماعت کو پڑھانے کے لیے آئے تو ادارہ علوم ابلاغیات کی راہ داری میں ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ ادارے کے داخلی دروازے کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ قدم ملائے اور ڈرتے ڈرتے عرض کی، سر میں دی نیشن کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ اس دوران وہ داخلی دروازے پر پہنچ چکے تھے، میری بات سنتے سنتے انہوں نے سگریٹ سلگائی، گہرا کش لیا اور کہا، ارے ہاں! میرے کورس میں سب سے زیادہ نمبر بھی تو آپ ہی نے لیے تھے۔
ان کی یہ بات میرے لیے بھی ایک خبر ہی تھی، کیوں کہ میرا اس وقت بھی یہی رویہ ہوا کرتا تھا اور آج بھی یہی ہے کہ اپنی محنت اور نصیب کا جو مل رہا ہے، بس اس سے غرض رکھتا ہوں۔ دوسرے کو کیا ملا، دوسرے کے پاس کیا کچھ ہے، نہ کبھی یہ دیکھا نہ سوچا۔ تو زمانہ طالب علمی میں، نوٹس بورڈ پر بس اپنے نمبر دیکھ کر آ جایا کرتا تھا۔ کس کے نمبر مجھ سے زیادہ ہیں، کس کے کم ہیں، اس بات کی پروا ہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ تبھی مجھے یہ بات یاد نہ تھی، لیکن ایم اے نیازی صاحب کو یاد تھا کہ ان کے کورس میں سب سے زیادہ نمبر میرے تھے۔ تو میرے درخواست کرنے پر انہوں نے مجھے اپنے دفتر بلا لیا۔
وہاں مجھے سنڈے میگزین کے لیے فیچرز لکھنے کا کام دے دیا گیا۔ نیشن سنڈے میگزین کا اسٹاف چند ہی لوگوں پر مشتمل تھا اور سبھی نے مجھے بہت سکھایا۔ وہاں نوید صاحب ہوتے تھے، عامرہ صاحبہ تھیں، سمیرا درانی صاحبہ تو یونیورسٹی میں بھی میری سینیئر تھیں۔ ان سب نے مجھے ایسی شفقت دی جیسے چھوٹے بھائیوں کو دی جاتی ہے۔ یہ سب انتہائی صبر سے میری غلط سلط انگریزی کو درست کرتے، میرے لکھے ہوئے کو نکھارتے اور جب ان کی محنت میرے نام سے چھپ جاتی تو میں دھڑلے سے شاباشیاں وصول کیا کرتا۔
13 ستمبر 2025 کو یہ تحریر فیس بک پر شائع ہو رہی ہے۔ یعنی اس خط کو پورے 19 برس بیت گئے ہیں۔ میں تو اس بات پر بھی حیران ہوں کہ یہ خط اتنے سال میرے پاس محفوظ کیسے رہا، کیوں کہ اپنی تحریروں کے سبھی پرانے مسودے، پرانے خطوط وغیرہ ارادتاً گم کر چکا ہوں۔ کئی یادگار کاغذ جان بوجھ کر پھینک دیے کہ یادوں کی پوٹلی کا وزن کم ہو اور اسے اٹھانا آسان رہے۔
اس خط کا بچ رہنا بھی بس ایک اتفاق ہی ہے۔ شاید یہ اس لیے محفوظ رہا کہ جب میں کوچہ صحافت میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت گزار چکا ہوں گا، جب صحافت پر چھایا موسم خزاں مجھے اپنے رنگ دکھائے گا، جب برسوں کی محنت اور تجربے کا مول کوڑیوں میں لگایا جائے گا، جب تنخواہ میں اضافے کے خواب ادھورے رہ جائیں گے، جب پہلے سے موجود تنخواہ میں بھی کٹوتی کر دی جائے گی، جب کٹوتی شدہ تنخواہ کا انتظار بھی طویل ہوتا جائے گا اور دل کی دھڑکنیں بے ترتیب کرے گا، اس وقت یہ خط میرے سامنے آئے گا اور وہ وقت یاد دلائے گا جب ایک چیک وصول ہونے پر کیسا حوصلہ اور اعتماد ملتا تھا، جدوجہد کے ارادے کو سہارا ملتا تھا۔

