Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Sheikh Rashid Bin Saeed Al Maktoum, Dubai Ka Muammar e Awal

Sheikh Rashid Bin Saeed Al Maktoum, Dubai Ka Muammar e Awal

شیخ راشد بن سعید المکتومؒ، دبئی کا معمار اول

1958 کا دبئی، سورج کی تپش میں جھلستی ریت، چھوٹا سا تجارتی مرکز، مچھیروں کی کشتیاں اور ایک بے سمت خواب۔۔ لیکن قدرت نے اسی ریت میں ایک ایسا موتی چھپا رکھا تھا، جس کی چمک آنے والے عشروں میں پوری دنیا دیکھنے والی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب 1912ء میں پیدا ہونے والے شیخ راشد بن سعید المکتوم نے باقاعدہ طور پر دبئی کی امارت سنبھالی اور پھر صرف دبئی ہی نہیں، پورا متحدہ عرب امارات ترقی، روشنی اور وقار کی جانب بڑھنے لگا۔

میری یہ تحریر 4 اگست 2025 کو ابوظہبی کے روح افزا ماحول میں، جامعہ الازہر کی لائبریری سے ملنے والے تاریخی حوالوں اور 1960 تا 1980 کے مختلف جرائد کے مطالعہ کے بعد ترتیب دی گئی ہے، تاکہ قارئین کو ایک مکمل تصویر دی جا سکے، کہ شیخ راشد بن سعید المکتوم کون تھے اور ان کی خدمات کا دائرہ کس قدر وسیع تھا۔

شیخ راشدؒ 11 جون 1912 کو دبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ سعید بن مکتوم المکتوم دبئی کے حکمران تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے مقامی مکتب میں حاصل کی، بعد ازاں مکہ مکرمہ اور بعد میں الاحساء اور کویت کے علمائے کرام سے استفادہ کیا۔ شیخ راشد بچپن ہی سے غیرمعمولی ذہانت اور فہم و فراست کے حامل تھے۔ ان کی طبیعت میں سنجیدگی، بصیرت، قوتِ فیصلہ اور دوراندیشی نمایاں تھی۔

1940ء کی دہائی میں جب دبئی اقتصادی زوال کا شکار تھا، تب شیخ راشد نے اپنے والد کے ساتھ مل کر شہر کے بنیادی ڈھانچے کی ازسرنو تشکیل کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے اس وقت دبئی کریک (خلیج) کی گہرائی بڑھانے کا خواب دیکھا، تاکہ بڑی تجارتی کشتیاں لنگر انداز ہو سکیں۔ اس منصوبے پر عمل درآمد 1959ء میں شروع ہوا۔ جس کا ثمر آج دبئی پورٹ کی عالمی شہرت ہے۔ دبئی پورٹ جب میں نے دیکھا، تو میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا، کہ اتنا وسیع و عریض اس کا رقبہ نہیں ہے، لیکن یہ جتنا مصروف ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

میرے کالموں میں جو بات نمایاں ہوتی ہے، وہ یہ کہ میں ہمیشہ مقام، تاریخ اور اعداد و شمار پر زور دیتا ہوں۔ اسی طرز پر عرض ہے کہ شیخ راشدؒ نے 1961ء میں دبئی میونسپلٹی قائم کی، جو اس وقت عرب دنیا کی جدید ترین بلدیاتی تنظیموں میں سے ایک بن چکی ہے۔ پھر 1963ء میں "دبئی ائیرپورٹ" کی بنیاد رکھی گئی اور یہ وہی دور ہے جب خلیجی دنیا میں تیل کی دریافت نے معاشی میدان میں ایک زلزلہ برپا کیا۔

یہ سب کچھ ایک وژنری حکمران کی بصیرت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ شیخ راشد نے صرف دبئی کی تعمیر نہیں کی، بلکہ انہوں نے یو اے ای کے قیام کی راہ ہموار کی۔

2 دسمبر 1971 کو جب سات ریاستیں ایک پرچم تلے جمع ہوئیں، تو عزت مآب شیخ زاید بن سلطان النہیانؒ اور عزت مآب شیخ راشد بن سعید المکتومؒ کی مشترکہ قیادت نے ایک نئے عرب ملک کی بنیاد رکھی۔ وہ 1979 تک نائب صدر اور وزیراعظم بھی رہے اور ان کی مدت حکومت میں دبئی ایک جدید تجارتی و مالیاتی مرکز میں تبدیل ہوا۔

ان کے چار بیٹے: شیخ مكتوم بن راشد المکتوم (جو بعد میں حکمران بنے)، شیخ حمدان، شیخ محمد اور شیخ احمد نے ان کے نقشِ قدم پر چل کر دبئی کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن رکھا۔ خصوصاً شیخ محمد بن راشد المکتوم موجودہ نائب صدر، وزیر اعظم اور حکمران دبئی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے وژن کو لے کر عالمی سطح پر دبئی کی پہچان بن چکے ہیں۔

ایک دفعہ 1977ء میں شیخ راشدؒ نے فرمایا: "ہم تیل پر بھروسہ نہیں کریں گے، ہم تعلیم، تجارت اور ٹیکنالوجی کو اپنی بنیاد بنائیں گے"۔

یہ فقرہ محض الفاظ نہیں، بلکہ دبئی کی مستقبل کی بنیاد تھا۔

شیخ راشد کا اندازِ حکمرانی سادہ، شفاف اور عوام دوست تھا۔ وہ روزانہ لوگوں سے ملاقات کرتے، شکایات سنتے اور خود حل نکالتے۔ انہیں دنیاوی جاہ و جلال میں کوئی دلچسپی نہ تھی، بلکہ ان کی توجہ صرف اور صرف قوم کی خدمت پر مرکوز تھی۔

20 اکتوبر 1990 کو جب وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے، تو دنیا نے ایک مدبر، مخلص اور دور اندیش رہنما کو کھو دیا۔ ان کی وفات کے بعد دبئی میں تین روزہ سوگ منایا گیا۔ اقوامِ متحدہ سمیت درجنوں عالمی اداروں نے ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

میں نے جب 2023 میں ان کے قائم کردہ جمیرہ مسجد، الراشدیہ پارک اور دبئی کی قدیم مارکیٹس کا دورہ کیا، تو محسوس ہوا کہ ایک شخص کس طرح تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔ ان کا ہر منصوبہ آج ایک حقیقت ہے، ہر خواب ایک بلند عمارت بن چکا ہے اور ہر قدم دنیا کو حیران کر رہا ہے۔

شیخ راشد کی خدمات پر اگرچہ عربی اور انگریزی میں بے شمار کتب موجود ہیں، لیکن اردو زبان میں ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے والی تحریریں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے قارئین کو یہ تحفہ پیش کرنے کا عزم کیا، تاکہ ہمارے نوجوان جان سکیں کہ وژن، قربانی اور قیادت کیا ہوتی ہے۔

آج جب میں اس کالم کو مکمل کر رہا ہوں، تو دبئی کی شام نیلے آسمان پر سونے کی مانند پھیل رہی ہے۔ برج خلیفہ کی چمک، دبئی میوزیم کی تاریخی گہرائیاں اور سیاحوں سے بھرے بازار شیخ راشد بن سعید المکتومؒ کی دور اندیشی کے زندہ ثبوت ہیں۔ وہ ایک شخص نہیں، ایک عہد تھا۔ ایک ایسا عہد جس نے ریت میں تہذیب کی عمارت کھڑی کر دی۔ اللہ تعالی آپ کی قبر پر کروڑوں ہا رحمتیں نازل فرمائے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan