Sheikh Mohammed Bin Rashid Al Maktoum, Dubai Ka Muammar e Sani
شیخ محمد بن راشد المکتوم، دبئی کا معمارِ ثانی

وہ ایک بچہ تھا۔ عام سا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک غیر معمولی چمک تھی۔ خوابوں کی روشنی اور کچھ کر گزرنے کی آرزو۔ سال تھا 1949ء مہینہ جولائی اور دن 15 تاریخ۔ مقام، ایک صحرائی مگر تہذیبی روشنیوں سے منور ریاست، دبئی۔ اس دن شیخ راشد بن سعید المکتوم کے گھر میں ایک ایسے بچے نے آنکھ کھولی، جسے آنے والے برسوں میں دنیا شیخ محمد بن راشد المکتوم کے نام سے جانے گی۔
بچپن ہی سے وہ غیر معمولی ذہانت، بردباری اور فطری قیادت کی صلاحیتوں کا مظہر تھا۔ اس کی تعلیم کی ابتدا دبئی کے المحمدیہ اسکول سے ہوئی، مگر جلد ہی انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا۔ 1966ء میں وہ کیمبرج کی مشہور مونز ملٹری اکیڈمی سے گریجویشن کرنے والے پہلے اماراتی نوجوان بنے۔ عسکری تربیت، حکمت عملی اور نظم و ضبط کی وہ بنیادیں، جو بعد میں دبئی کی ترقی میں بنیادی ستون بنیں، اسی اکیڈمی میں مضبوط ہوئیں۔
شیخ محمد کو صرف تعلیم سے نہیں، تاریخ، ادب، گھڑ دوڑ، شکار اور شعر و شاعری سے بھی خاص دلچسپی رہی۔ وہ عربی ادب کے عاشق اور بدوی ثقافت کے امین ہیں۔ ان کے تحریر کردہ شعری مجموعے "فارس العرب" اور "روح القیادة" آج بھی عرب دنیا میں اعلیٰ ادبی مقام رکھتے ہیں۔
3 جنوری 1995ء کو جب انہیں دبئی کا ولی عہد مقرر کیا گیا، تب تک وہ امارات کی داخلی سیکیورٹی، تجارت اور سیاحت سے وابستہ امور میں گہری بصیرت حاصل کر چکے تھے۔ پھر 4 جنوری 2006ء کو ان کے والد شیخ راشد کے انتقال کے بعد وہ دبئی کے حکمران بنے اور پھر متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم اور نائب صدر کا منصب بھی سنبھالا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب دبئی ایک نئے دور میں داخل ہوا۔
شیخ محمد نے حکومت کو ایک کاروباری ادارہ بنانے کا عزم کیا۔ بیوروکریسی کو چھوٹے اور مربوط اداروں میں تقسیم کرکے ہر محکمہ میں کارکردگی کا نظام متعارف کرایا۔ "دبئی اسٹریٹیجک پلان 2015" اور پھر "ویژن 2021" نے دبئی کو صرف ایک شہر نہیں، ایک خواب میں بدل دیا۔
انہوں نے دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ (افتتاح: 4 جنوری 2010) سب سے بڑی شاپنگ مال دبئی مال، دنیا کا مصروف ترین دبئی ایئرپورٹ، جدید ترین میٹرو سسٹم اور سبز توانائی کے منصوبے متعارف کروائے۔ ان کے وژن کی بدولت دبئی آج 200 سے زائد ممالک کے افراد کا مشترکہ مسکن ہے، جہاں دنیا بھر کے سرمایہ کار، سیاح، ماہرین اور مزدور اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرتے ہیں۔
شیخ محمد کا سب سے بڑا کارنامہ صرف انفرا اسٹرکچر نہیں بلکہ انسانی ترقی ہے۔ "محمد بن راشد المکتوم فاؤنڈیشن" کا قیام ہو یا "گلوبل انیشیٹو فار فیوچر"، تعلیم، طب، ماحولیات اور سوشل ویلفیئر ہر شعبے میں ان کی خدمات عالمی معیار کی ہیں۔
اکتوبر 2020 میں جب دبئی ایکسپو 2020 کا انعقاد ممکن ہوا (جو کووڈ کی وجہ سے اکتوبر 2021 میں منعقد ہوا) تو اس کے پیچھے انہی کی قیادت، حوصلہ اور تدبیر کارفرما تھی۔ 24 ملین سے زائد لوگوں نے اس عالمی میلے میں شرکت کی۔ یہ صرف ایک تجارتی ایونٹ نہیں تھا، بلکہ ایک تہذیبی پیغام تھا۔
شیخ محمد بن راشد المکتوم کی اولاد میں شیخ حمدان بن محمد، ولی عہد دبئی، سب سے نمایاں ہیں۔ شیخ محمد نے اپنے بچوں کو بھی قیادت اور خدمت کے جذبے سے متعارف کروایا اور دبئی کی نئی نسل ان کی پالیسیوں کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔
وہ صرف حکمران نہیں، ایک شاعر، مفکر، ماہر تعلیم اور ترقی کے متوالے ہیں۔ ان کے الفاظ میں "ہم وہ قوم ہیں جس نے صحرا کو خواب اور خواب کو حقیقت میں بدلا ہے۔ ہم رُکنے والوں میں سے نہیں اور نہ ہی پیچھے دیکھنے والوں میں۔ ہمارا سفر، صرف آگے کی جانب ہے"۔
16 جنوری 2025 کو جب Museum of the Future دبئی میں "Great Arab Minds Award" کے تحت علمی و فکری خدمات انجام دینے والی عرب شخصیات کو اعزازات سے نوازا گیا، تو یہ دراصل خود شیخ محمد کی سوچ اور وژن کا اعتراف تھا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ عرب دنیا فقط ماضی کی میراث نہیں، بلکہ مستقبل کی قیادت بھی ہے۔
شیخ محمد بن راشد المکتوم نے اپنی زندگی کو انتھک محنت، گہری کوشش اور بے مثال جستجو کے نام کر دیا۔ ان کے بلند حوصلے اور مستحکم عزائم نے دبئی کو محض ایک صحرائی علاقہ نہیں بلکہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اور جدید شہروں میں شامل کر دیا۔ جب انسان کی ارادے مضبوط ہوں اور عزم بلند ہو، تو وہ ایسے تاریخی کارنامے انجام دیتا ہے جو نسل در نسل مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ یہی جذبہ اور کوشش ہے جس نے دبئی کو عالمی سطح پر ایک روشن مثال بنایا اور ہمیں یہ سکھایا کہ محنت اور حوصلہ مندی سے کوئی بھی مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

