Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Qasr Al Muwaiji

Qasr Al Muwaiji

قصر المویجعی

العین، ابو ظبی (متحدہ عرب امارات) کا وہ شہر ہے جو ہمیشہ مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ 29 جولائی 2025ء کو میں اپنے عزیز کزن عرفان خان یوسف زئی کے ہمراہ سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ قصر المویجعی کی جانب روانہ ہوا۔ دل میں تجسس کا ایک دریا موجزن تھا۔ یہ محل، جو وقت کے کئی طوفانوں کا گواہ ہے، صرف ابو ظبی کی نہیں بلکہ پورے امارات کی تاریخ، سیاست، ثقافت اور شاہی ورثے کا درخشاں استعارہ ہے۔

قصر المویجعی العین کے قلب میں واقع ہے۔ یہ ان تاریخی مقامات میں شامل ہے جنہیں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ اس کی تعمیر بیسویں صدی کے آغاز میں، غالباً 1910 کے آس پاس، شیخ خلفان بن محمد آل نہیان نے کروائی، جو اُس وقت العین کے مقامی حکمران تھے۔ بعد ازاں 1946 سے 1966 تک یہ محل شیخ زاید بن سلطان آل نہیان کی رہائش گاہ اور حکومتی مرکز رہا، جو بعد میں امارات کے بانی بنے۔

قصر کی تعمیر مٹی، پتھروں، کھجور کی لکڑیوں اور مقامی مواد سے کی گئی ہے۔ اس کا طرزِ تعمیر نہ صرف سادگی اور ماحول دوستی کی جھلک دیتا ہے بلکہ اماراتی ورثے اور ریگستانی فضا سے ہم آہنگی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ہوادار صحن، سادہ در و دیوار، بلند مینار، سب مل کر ایک روحانی وقار کا احساس دیتے ہیں۔

قصر المویجعی کو ایک جذباتی علامت کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں 1948 میں شیخ محمد بن زاید آل نہیان کی ولادت ہوئی، جو آج متحدہ عرب امارات کے صدر ہیں۔ محل میں قائم عجائب گھر (میوزیم) میں شیخ زاید کی قیادت، وژن اور تعمیرِ وطن کے نادر لمحات محفوظ ہیں، جو زائرین کو ماضی کی جھلک دکھاتے ہیں۔

محل کے بیرونی حصے میں کھجوروں سے آراستہ باغیچہ اور ریتیلے صحن عرب طرزِ زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ قصر کا مینار دور سے دکھائی دیتا ہے، جو کبھی قلعے کی نگہبانی کے لیے تھا، مگر آج وہ قیادت، جرات اور فہم و فراست کی علامت بن چکا ہے۔

حالیہ برسوں میں اس قصر کو خوبصورتی سے بحال کرکے اسے سیاحتی و تحقیقی مرکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہاں آنے والا صرف ایک عمارت نہیں دیکھتا بلکہ وہ امارات کی روح، اس کی روایات، قیادت اور تہذیبی تسلسل کو محسوس کرتا ہے۔

قصر المویجعی کی فضاؤں میں ایک ایسی خامشی ہے جو سننے والوں کو بہت کچھ سنا جاتی ہے۔ یہ محض ایک قلعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ احساس ہے، ماضی سے جڑا ہوا، حال میں سانس لیتا اور مستقبل کی طرف امید سے دیکھتا ہوا۔ میرے اس دورے نے تاریخ، ثقافت اور قیادت کے رشتے کو میرے دل میں اور بھی گہرا کر دیا۔ شام کو جب ہم محل سے واپس ہوئے، سورج غروب ہو رہا تھا، مگر میرے دل میں ایک نئی روشنی طلوع ہو چکی تھی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan