Pardesi Ki Khalwat, Kya Dunya Mein Hamara Maqsad Poora Ho Raha Hai?
پردیسی کی خلوت، کیا دنیا میں ہمارا مقصد پورا ہو رہا ہے؟

پردیس کی خاموش راتوں میں جب دل سوال کرتا ہے کہ کیا یہی زندگی ہے؟
ایک روز ہمارے محترم دوست جناب شیر حسن صاحب جو ایم بی اے کی ڈگری رکھنے کے ساتھ دینی ذوق بھی رکھتے ہیں، نے پردیس کی زندگی کا ایک فکری پہلو چھیڑ دیا۔ وہ مڈل ایسٹ میں تنہا زندگی گزار رہے ہیں، ان کی فیملی اپنے وطن میں مقیم ہے۔ انہوں نے کہا: "ہم پردیسی لوگ صبح ڈیوٹی پر جاتے ہیں، شام کو واپس آ کر گھر میں تنہائی کا سامنا کرتے ہیں اور پانچ وقت نماز بھی پڑھتے ہیں، لیکن کیا یہی زندگی ہے؟ کیا یہی دین کی تکمیل ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اسی معمولی طرزِ حیات کے لیے دنیا میں بھیجا ہے؟ کیا ہم صرف انہی کاموں سے بخشے جائیں گے؟"
یہ سوال صرف شیر حسن صاحب کا نہیں، بلکہ دنیا بھر میں لاکھوں تارکینِ وطن کے دلوں میں اٹھنے والا ایک عمومی سوال ہے۔ آئیے اس سوال کا جواب قرآن، سنت، تاریخ اور علماء کے اقوال کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح الفاظ میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان فرمایا: "وما خلقت الجن والانس إلا لیعبدون"۔ (سورۃ الذاریات: 56)
ترجمہ: "اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے"۔
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے، کہ زندگی کا اصل مقصد "عبادت" ہے اور عبادت کا مفہوم صرف نماز، روزہ تک محدود نہیں بلکہ ہر جائز کام، اگر خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے، وہ عبادت شمار ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "طلب الحلال فریضۃ علی کل مسلم"۔ (بیہقی، شعب الایمان)
ترجمہ: "حلال رزق حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔
لہٰذا اگر کوئی شخص رزقِ حلال کی تلاش میں اپنا وطن، گھر اور خاندان چھوڑ کر محنت کر رہا ہے، تو یہ عمل بھی اللہ کی نظر میں عبادت ہے، بشرطیکہ نیت درست ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "إنما الأعمال بالنیات"۔ (بخاری و مسلم)
ترجمہ: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"۔
اگر کسی شخص کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنی فیملی کی کفالت، دین کی خدمت اور اپنے رزق کو پاکیزہ بنانے کے لیے محنت کر رہا ہے، تو وہ شخص ہر لمحہ عبادت میں شمار ہوگا۔
جب حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ مدینہ ہجرت کرکے آئے، ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ انہوں نے محنت کی، تجارت کی اور اس قدر کمایا کہ بعد میں غزوہ تبوک جیسے اہم موقع پر سینکڑوں اونٹ اللہ کے راستے میں پیش کر دیے۔ محنت اور عبادت ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ ان کی زندگی اس بات کا بہترین نمونہ ہے کہ تجارت اور رزق کے ساتھ دین کی روح کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
امام غزالیؒ نے "احیاء علوم" میں فرمایا: "دنیا کی محنت، اگر آخرت کی نیت سے ہو، تو وہ دنیا نہیں بلکہ دین ہے"۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "عبادت فی الھرج کاہجرت إلیّ"۔ (مسلم)
ترجمہ: "فتنوں کے زمانے میں عبادت کرنا ایسا ہے، جیسے میری طرف ہجرت کرنا"۔
پردیس کی زندگی بذات خود ایک آزمائش ہے۔ تنہائی، زبان کا فرق، ثقافت کا جھٹکا اور رشتہ داروں سے دوری، یہ سب مل کر ایک مجاہدہ بن جاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی بندہ نماز قائم رکھتا ہے، رزقِ حلال کماتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے، تو اس کی عبادت کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
جی ہاں، یہ زندگی اگرچہ بظاہر معمولی لگے، اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ہے، اگر نیت خالص ہو۔ پردیس میں ڈیوٹی، تنہائی، نماز اور حلال کمائی یہ سب زندگی کے اعلیٰ ترین پہلو بن سکتے ہیں، اگر ان میں "رضائے الٰہی" کا عنصر شامل ہو۔ اللہ نے ہمیں زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے اور خلیفہ کا کام صرف مسجد میں بیٹھنا نہیں، بلکہ دنیا میں چلتے پھرتے اللہ کی اطاعت کا نمونہ بننا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص، عبادت، حلال رزق اور دین پر استقامت عطا فرمائے۔

