Markazi Sheikh Zayed Bin Sultan Al Nahyan Masjid, Shan o Shaukat Ki Alamat
مرکزی شیخ زائد بن سلطان النہیان مسجد شان و عظمت کی علامت

مرکزی شیخ زائد بن سلطان النہیان مسجد، ابوظبی، متحدہ عرب امارات کی سب سے شاندار اور عالمی سطح پر معروف مساجد میں شامل ہے۔ اس کی بنیاد مارچ 1996ء میں رکھی گئی اور مسلسل پانچ سال کی محنت کے بعد نومبر 2001ء میں مکمل ہوئی، جس پر تقریباً نو ارب درہم خر خرچ ہوئے۔ دنیا کی سب سے بڑی ہاتھ سے بنی ہوئی قالین اس مسجد میں ہے۔ اس کے بلند و بالا گنبد دور سے ہی نظر آتے ہیں۔ کرسٹل فانوس، قالین اور کشادہ صحن اسے عالمی معیار کا شاہکار بناتے ہیں۔ یہاں ہر سال تقریباً دس لاکھ زائرین آتے ہیں اور یہ یو اے ای کے پہلے صدر، شیخ زائد بن سلطان النہیان، کی مدفون گاہ بھی ہے۔
ہم شارجہ سے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے بیٹے محمد ریان نور، بیٹی فاطمہ نور اور شریکِ حیات امِ ریان بھی تھیں۔ چونکہ راستہ تقریباََ تین گھنٹے پر محیط تھا، اس لیے ہم نے اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان رکھا، تاکہ سفر کے دوران کسی بھی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ راستے میں مختصر توقف کے دوران پیٹرول بھروایا اور بچوں کے لیے فروٹس اور ہلکے برگر لے کر تھوڑی ریفریشمنٹ کی۔ ہر لمحہ، راستے کے مناظر اور ہلکی ہوا نے ہمارے سفر کو یادگار بنایا۔
اپنی یادداشت سے ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں، ایک بار امریکہ سے میرے ایک دوست اپنی بیوی کے ساتھ آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا، کہ وہ ابوظہبی کی مرکزی شیخ زائد بن سلطان النہیان مسجد دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں اور ان کی بیوی کو یہاں لے کر آیا اور وہ مسجد کے حسن و عظمت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے انڈیا کا تاج محل بھی دیکھا ہے، لیکن یہ مسجد تاج محل سے بھی زیادہ شاندار ہے اور شاید اس سے زیادہ خوبصورت بنانا ممکن نہ ہو"۔
یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، اب میں آتا ہوں اپنے سفر کی جانب، جب ہم مسجد کے مرکزی ہال میں داخل ہوئے، تو سب سے پہلے ہاتھ سے بنا ہوا، دنیا کا سب سے بڑا قالین نظر آیا، جس نے ہر قدم پر سکون اور راحت کا احساس دلایا۔ ہال میں سونے کا استعمال بھی نمایاں تھا، خاص طور پر فانوسوں اور دیگر آرائشی عناصر میں۔ مرکزی نماز ہال میں نصب سب سے بڑا فانوس 15 میٹر بلند اور 10 میٹر قطر کا ہے، جس کا وزن تقریباً 12 ٹن ہے اور اسے سٹینلیس اسٹیل سے بنایا گیا ہے، جس پر 24 قیراط سونے کی ورق کاری کی گئی ہے، جبکہ اس میں لاکھوں رنگین سوارووسکی کرسٹل جڑے ہیں۔ مسجد کے دیگر فانوس بھی سونے کی ورق کاری اور نفیس آرائش سے مزین ہیں۔ مزید برآں، دیواروں اور ستونوں پر بھی سونے کی پتیاں اور نقش و نگار بنائے گئے ہیں، جو مسجد کی شان و عظمت اور اسلامی فن تعمیر کی جمالیات کو واضح کرتے ہیں۔
مسجد کے عظیم دروازے سے داخل ہوتے ہی محسوس ہوا، کہ یہ محض عبادت گاہ نہیں، بلکہ فن، ثقافت اور تاریخ کا زندہ شاہکار ہے۔ کشادہ صحن، بلند و بالا گنبد اور مناروں کی شکوہ دار ساخت ہر دیکھنے والے کو محظوظ کرتی ہے۔ ہاتھ سے بنی قالین ہر قدم کو سکون اور راحت سے بھر دیتا ہے، جبکہ کرسٹل فانوس ہال کو دن رات روشن کرتے ہیں اور آنکھوں کو محظوظ کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو ہر گوشے کی تفصیل بتائی اور امِ ریان کے ساتھ ہر لمحے کی خوبصورتی بانٹی۔ پانی کے فوارے اور خوبصورت باغات صحن کی کشش کو دوبالا کرتے ہیں اور زائرین کے لیے روحانی سکون کا سبب بنتے ہیں۔
شیخ زاید بن سلطان آل نہیان، متحدہ عرب امارات کے بانی اور پہلے صدر، 6 مئی 1918 کو پیدا ہوئے اور 2 نومبر 2004 کو 86 سال کی عمر میں وفات پا گئے، جو رمضان کی 19 تاریخ کے روز ہوئی۔ ان کی خدمات اور وژن نے متحدہ عرب امارات کو جدید اور ترقی یافتہ ملک بنایا اور ان کی یاد میں یہ عظیم مسجد اب بھی روحانیت، ثقافت اور فن تعمیر کا مرجع ہے۔
رات کے وقت فانوس کی روشنی، گنبد اور مناروں کی چمک اور باغات کی حسین منظر کشی ایک جادوی ماحول پیش کرتے ہیں۔ کرونا کے بعد سے 2025ء تک یہاں آنے والے زائرین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جس نے اس مسجد کی عالمی شہرت کو مزید مستحکم کیا۔ ہر قدم پر مسجد کی عظمت اور تاریخی اہمیت محسوس ہوتی ہے اور فیملی کے ساتھ یہ لمحے دل میں ہمیشہ رہ جاتے ہیں۔
واپسی کے وقت، ہم آخر میں شیخ زائد بن سلطان النہیان کی قبر کی طرف گئے، جو مسجد کے صحن میں داخلی دروازے کے دائیں جانب واقع ہے۔ وہاں ہم نے عقیدت و احترام کے ساتھ فاتحہ خوانی کی اور شیخ زاید کی عظمت اور خدمات کو یاد کیا، جبکہ فوٹوگرافی کی اجازت نہ ہونے کے سبب یہ لمحے ہم نے دل و جان میں محفوظ کر لیے۔ ہمارے بیٹے اور بیٹی نے بھی ہر منظر کو یادگار لمحے کے طور پر اپنے دل میں بسانا اور امِ ریان کے ساتھ یہ یادیں ہماری فیملی کے لیے سنہرے لمحات میں شامل ہوگئیں۔
مرکزی شیخ زائد بن سلطان النہیان مسجد نے نہ صرف ہمارے سفر کو یادگار بنایا، بلکہ یو اے ای کی شان، ثقافتی ورثے اور روحانیت کی تصویر بھی ہمارے دلوں میں بسانی۔ ہر ستون، ہر گنبد، ہر فانوس اور ہر قالین ایک ناقابلِ بیان حسن کی علامت ہیں، جو زائرین کے لیے سکون، درس اور روحانی ترغیب کا سبب بنتے ہیں۔

